سینکڑوں افغان شہری پاسپورٹ آفس پہنچ گئے

Passports Offices

Passports Offices

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان حکومت کی جانب سے پاسپورٹ آفس کھولے جانے کے اعلان کے اگلے روز ہی آج سینکڑوں افغان باشندے پاسپورٹ آفس کے باہر جمع ہوگئے۔ رش پر قابو پانے کے لیے طالبان سکیورٹی اہلکاروں نے کچھ افراد کو مارا پیٹا بھی۔

پاسپورٹ آفس کھولے جانے کے اعلان کے بعد سیکنڑوں افراد ہر طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی درخواستوں کو کابل کے پاسپورٹ حکام تک پہنچانے کی کوششوں میں دکھائی دیے۔ یہ مناظر طالبان کی جانب سے ملک پر قبضے کے بعد کابل ایئر پورٹ پر جاری بھگدڑ اور بے چینی کی یاد تازہ کرا رہے تھے۔

ہجوم میں موجود احمد شکیب صدیقی کا کہنا تھا، ”مجھے پاسپورٹ نہیں مل سکا، مجھے نہیں معلوم کہ ان حالات میں کیا کریں۔‘‘ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ پاسپورٹ ملنے کے بعد اپنے ایک عزیز کو علاج کے لیے پاکستان لے جانا چاہتے ہیں لیکن وہ مستقبل میں اس ملک کو چھوڑنا بھی چاہتے ہیں، ”ہمیں افغانستان چھوڑنا ہے، یہاں حالات ٹھیک نہیں، ہمارے پاس کوئی کام کوئی نوکری نہیں‘‘۔

طالبان حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاسپورٹ جاری کرنے کا عمل ہفتے سے شروع ہوگا۔ اس سال اگست میں طالبان کی جانب سے ملک پر قابض ہونے کے بعد سے پاسپورٹ آفس بند تھا۔ اس وجہ سے کئی افغان شہری جو بیرون ملک سفر کرنا چاہتے تھے، وہ ملک میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے۔

پاسپورٹ بنوانے کے ایک خواہشمند ماہر رسول کا کہنا تھا،”میں پاسپورٹ بنوانے آیا ہوں، لیکن یہاں بہت زیادہ مسائل ہیں، سسٹم کام نہیں کر رہا۔ یہاں کوئی افسر نہیں جو ہمارے سوالوں کا جواب دے، لوگ پریشان ہیں۔‘‘ طالبان کے ترجمان کی جانب سے اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں بھوک اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ عوام پہلے ہی خشک سالی اور کورونا وبا سے پریشان تھے۔

افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔

حالیہ کچھ ماہ میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ یہ افراد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اقتصادی بہتری نہیں آتی اور عوام تک تعلیمی اور طبی سہولیات نہیں پہنچائی جاتی تو مزید افغان شہری اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔

طالبان کا کہنا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس بحران میں عالی برادری ان کی مدد کرے۔ عالمی سطح پر اب بھی طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ سابقہ افغان حکومت کے اثاثے منجمد ہیں اور بہت کم ممالک طالبان حکومت کی مالی مدد کر رہے ہیں۔