افغانستان کو عالمی برادری کی امداد کی ضرورت ہے، طالبان

Protest

Protest

قندوز (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے شہر قندوز میں طالبان کے صوبائی ترجمان نے بین الاقوامی برادری سے اس جنگ زدہ ملک کے لیے امداد کی اپیل کی ہے تاکہ وہاں انسانی بحران پر قابو پایا جا سکے۔

طالبان کے صوبائی ترجمان مطیع اللہ روحانی کا کہنا ہے کہ جرمنی سمیت عالمی برادری افغانستان میں امداد ملک کے تعمیراتی منصوبوں کی صورت یا پھر کسی اور صورت میں بھی دے سکتی ہے۔ روحانی نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان نے آٹھ اگست کو قندوز پر قبضہ کیا تھا اور اگست کے آخر میں امریکا کے تمام فوجی ملک سے انخلاء کر گئے تھے۔

روحانی نے افغانستان کی سابقہ ‘کرپٹ حکومت‘ کی بیس سال تک مدد کرنے اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد امداد روکنے پر عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ روحانی کا کہنا تھا،”طالبان افغانستان میں امن لائے ہیں، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔‘‘

دنیا بھر میں حکومتیں اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح کام کیا جائے؟ انیس سو نوے کی دہائی میں طالبان نے اپنی سابقہ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور ان کے گھروں سے باہر کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اب طالبان کی جانب سے یہ وعدے کیے گئے تھے کہ وہ ایک اعتدال پسند حکومت قائم کریں گے۔ تاہم حال ہی میں احتجاج کرنے والی خواتین اور صحافیوں پر تشدد اور وزارت خواتین کو ختم کر دینے جیسے اقدامات کے باعث انہیں عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کو بھی مایوسی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس عبوری حکومت میں نہ خواتین کی نمائندگی ہے اور نہ ہی افغانستان کے مختلف نسلی اور اقلیتی گروہوں کی۔ طالبان کی اکثریت پشتون نسل ہے، جو کہ افغانستان کی نصف آبادی سے بھی کم ہے۔

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کو طالبان کی مدد نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ وہ انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی نہ بنائیں۔ لیکن چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ ایک کثیر النسلی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔