افغانستان میں نئے انتخابات تک عبوری حکومت کی امریکی تجویز

Antony Blinken

Antony Blinken

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) تجویز کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے نئے آئین پر اتفاق اور انتخابات منعقد ہونے تک ایک نئی عبوری حکومت موجودہ حکومت کی جگہ لے گی اور ایک مشترکہ کمیشن جنگ بندی کی نگرانی کرے گا۔

تاہم افغانستان میں امن منصوبے کے حوالے سے امریکہ کی نئی تجویز کے اہم نکات پر باہم متحارب دھڑوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور کسی بھی فریق نے ان تجاویز پر اب تک باضابطہ کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے ‘عبوری امن حکومت‘ کے حوالے سے ایک تجویز گزشتہ ہفتے افغان صدر اشرف غنی، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے رہنماوں اور طالبان کے مذاکرات کاروں کو پیش کی تھی۔ تاہم ابھی تک اس مسودے پر کسی فریق کا کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ افغانستان میں نجی حلقے البتہ اسے کابل حکومت کے لیے ایک مشکل تجویز قرار دے رہے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن معاہدے کے رو سے کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے ایک عبوری امن حکومت کا قیام عمل میں آئے گا جس میں دونوں فریقوں کو نمائندگی حاصل ہو گی۔ یہ عبوری انتظامیہ نیا آئین بننے کے بعد اور اقتدار مستقل حکومت کو منتقل ہونے تک قائم رہے گی۔

مسودے کے مطابق عبوری حکومت کے تحت موجودہ قومی پارلیمان کی یا تو توسیع کی جائے یا طالبان کے اراکین کو شامل کیا جائے یا نئے انتخابات تک معطل رکھا جائے۔

مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان”نہ تو دہشت گردوں کی میزبانی کرے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین سے ایسی کسی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی اجازت دے گا جو دیگر ملکوں کے لیے خطرہ ثابت ہو اور طالبان کو اپنے محفوظ ٹھکانوں کو چھوڑنا پڑے گا اور ”پڑوسی ملکوں” سے فوجی رابطے ختم کرنے ہوں گے۔

مسودے میں جنگ بندی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ معاہدے کے فوراً بعد فریقین کی جانب سے مکمل جنگ بندی ہوگی اور طالبان افغانستان کے اندر اور دوسرے ملکوں میں قائم اپنا تمام جنگی انفراسٹرکچر ختم کرنے کے پابند ہوں گے، کوئی حریف بھی ملیشیا نہیں بنا سکے گا اور نہ ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں جواب دے گا بلکہ جنگ بندی کمیشن سے رجوع کرے گا۔

جنگ بندی کی نگرانی اور اسے یقینی بنانے کے لیے فریقین کے چار چار نمائندوں اور ایک صدر کے نمائندے پر مشتمل جنگ بندی کمیشن بنایا جائے گا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چند روز قبل افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط کے ذریعے اس تجویز سے آگاہ کیا تھا۔ بلنکن نے اپنے خط میں لکھا تھا: ”ہم اقوام متحدہ سے خواہش کا اظہار کریں گے کہ افغانستان میں امن کے قیام پر اتفاق رائے کے لیے امریکا، روس، چین، بھارت، ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس طلب کرے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگلے مرحلے میں حکومت اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں مذاکرات کا آغاز ہوگا، جن میں واشنگٹن کی شراکت اقتدار کی تجویز کی بنیاد پر گفتگو ہوگی۔

کابل میں صدارتی محل کے ایک اعلی عہدیدار سمیت چار سیاسی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرامریکا کی جانب سے تجویز کا مسودہ پیش کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ طلوع نیوز اور افغانستان کے دیگر میڈیا اداروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

کابل میں صدارتی محل کے ایک اعلی عہدیدار نے پیر کے روز کہا کہ صدر اشرف غنی نے عبوری حکومت کے لیے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا”ہم کسی کانفرنس یا سیاسی معاہدے کے ذریعہ قائم کسی عبوری نظام کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔”

طالبان نے بھی جنگ بندی اور انتخابات کو مسترد کر دیا ہے۔ طالبان کے ایک رہنما نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسند گو کہ عبوری حکومت میں شامل نہیں ہوں گے لیکن وہ اس طرح کی حکومت کے خلاف بھی نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال فروری میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق ایک معاہدہ ہوا تھا، جس میں طالبان اور کابل حکومت کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات اور یکم مئی تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر اتفاق ہوا تھا۔

اسی معاہدے کے تحت گزشتہ ستمبر میں دوحہ میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے، جو تاحال گفتگو کا ایجنڈا طے کرنے کے مرحلے پر ہی رکے ہوئے ہیں۔