آزادی مارچ سے سول نافرمانی تک

Freedom March

Freedom March

گیارہ مئی 2013 کو عام انتخابات ہوئے تو پاکستان مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا وطن عزیز کی عوام نے حکومت سے بہت سی توقعات باندھ لیں حالات و واقعات بھی اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ اس بار میاں برادران ماضی والی غلطیاں دھرانے سے اجتناب کریں گے ابھی حکومت کو صرف چودہ ماہ کا عرصہ ہی تو گزرا ہے لیکن حالات انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کی صورت میں بد سے بد تر ہونے جارہے ہیں قطع نظر کہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولتیں ملی یا نہیں ،مہنگائی کم ہوئی یا نہیں ،بجلی کے بلوں کے نرخوں میں کمی ہوئی یا نہیں پاکستان تحریک انصاف کو ”شریف حکومت ” کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے سے اجتناب کرنا چاہئے تھا لیکن تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کر رکھا ہے۔۔

جو یوم آزادی یعنی چودہ اگست کے موقع میں زندہ دلان شہر لاہور سے شروع کیا اور اب شہر اقتدار میں دھرنے کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اسلام آباد میں دس لاکھ افراد لانے کا دعوی کیا جو صرف دعوی ہی رہا اتنے افراد لانے میں ناکام رہے آزاد ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے دھرمنے میں پچیس ہزار کے لگ بھگ افراد شامل ہیں جن میں زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ سے آئی ہے یوم آزادی کے اگلے روز جب پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد پہنچا اور جلسہ کیا گیا تو جلسہ کے اختتام پہ کپتان سے سنگین غلطی سر زد ہوئی اس غلطی کو میڈیا نے آڑے ہاتھوں لیا حتی کہ ایسے اینکر جن پہ پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پہ چھاپ لگتی نظر آ رہی تھی۔۔

انہوں نے بھی عمران خان کی غلطی کو بڑھ چڑھ کر ہائی لائٹ کیا سیاسی تجزیہ نگار وں نے تحریک کے قائد پہ کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دھرنے میں شریک رہنا چاہئے تھا پہلے اور دوسرے روز کارکنان کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر پی ٹی آئی کے چیئر مین اپنی رہائش گاہ بنی گالہ چلے گئے پہلے روز سیاسی ٹمپو میں اس وقت کمی واقع ہوئی جب بارش کے ہاتھوں دھرنے میں دس گھنٹوں کا وقفہ آیا سیاسی ٹمپو ٹوٹنے سے عمران خان کی مقبولت کا گراف نیچے آیا کیونکہ قائد تحریک کا کہنا تھا کہ اگر میرے کارکنوں پہ گولی چلی تو سب سے پہلے میں گولی کھائوں گا پھر وطن عزیز کے عوام نے دیکھا جب گوجرانولہ میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ”گلو بٹ” کے بعد ”پومی بٹ ” جیسے کارکنوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں تصادم ہوا تو خان صاحب اپنے کارکنوں کے جلوس کو چھوڑ کر بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہوکر اسلام آباد چلے گئے۔۔

جہاں حکومت وقت غلطی پہ غلطی کئے جا رہی ہے وہاں پی ٹی آئی بھی پیچھے نہیں رہی اس نے بھی حکومت کی تقلید کرتے ہوئے سنگین نوعیت کی غلطیاں کرتی نظرآ رہی ہے اور اب قائد تحریک نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے عوام کو اس بات پہ اکسایا جارہا ہے کہ حکومت کو گیس بجلی کے بل دینے کی ضرورت نہیں ہے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعدخیبر پختون خوا کے وزیراطلاعات مشتاق غنی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کی جانب سے سول نا فرمانی کے اعلان کے باجود صوبائی حکومت ٹیکس وصولی جاری رکھے گی۔ اس موقع پہ کہنا پڑے گا ” کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔۔

PTI

PTI

اگر پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں جہاں پہ حکمرانوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے تو کیا ہی اچھا ہوتا جہاں خان صاحب حکومت سے بار بار مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہاں خیبر پختون خواہ جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے وہاں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے جس قومی اسمبلی سے خود مراعات لے رہے ہیں اپنے سمیت پارٹی ممبران قومی اسمبلی کے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے سڑکوں میں چلے آتے پارلیمانی اور جمہوری نظام میں کبھی بھی سڑکوں پہ فیصلے نہیں ہوئے۔۔

فیصلے، آئین اورقوانین ہمیشہ پارلیمنٹ میں بنے حکومت میں رہتے ہوئے سول نافرمانی کی باتیں سسٹم کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف ہوتی ہیں پاکستان بھر کے سول اداروں نے قائد تحریک کے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے گزشتہ روز والے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کے دوران خان صاحب تو وزیر اعظم پاکستان کو مستعفی ہونے کے لئے ” ترلے” کرتے دکھائی دیئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ”شریف حکومت” نے بھی معاملات کو عمدہ حکمت عملی اور سنجیدگی سے لینے کی سعی نہیں کی اب دیکھیں ہزاروں کارکنان اسلام آباد کی سڑکوں پہ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ریڈزون کی جانب کارکنان پیش قدمی کر چکے ہیں ایسے حالات میں میاں برادران چھٹی منانے جاتی عمرہ چلے جاتے ہیں اس وقت جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔۔

ان حالات میں حکومت،اپوزیشن اور سیاست دانوں میں کڑی ذمہ داری آ چکی ہے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان سے حالات کے کشیدہ ہونے کے قوی امکان ہے ایسی صورتوں میں ہمیشہ ”بوٹوں والے ” آتے ہیں اور پھر ان کا عرصہ اقتدار دس سالوں تک محیط ہوتا ہے سیاست دان حالات کی سنگینی کا بغور جائزہ لیں حکمران اپنے رویہ میںتبدیلی لاتے ہوئے نرمی دکھائیں اور سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کو بھی اپنے مطالبات میں کمی لاتے ہوئے کچھ دو اور کچھ لو والی پالیسی اپنائیں حالات کا پوائنٹ آف نو ریٹرن پہ لے جانا کوئی عقلمندی نہیں بلکہ بیوقوفی کہلاتی ہے۔۔

Dr. Khurram BA

Dr. Khurram BA

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم