عرب ریاستوں نے ساتھ چھوڑ دیا، اب فلسطینی کس کا در کھٹکھٹائیں

Protest

Protest

فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) دو عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ مشرق وسطی میں نئے اتحاد سامنے آ رہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں فلسطین تنہا ہوتا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ 11 ستمبر کی شب بحرین اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور بحرین کے شاہ حماد بن عیسی الخلیفہ کے ساتھ جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ تاریخی معاہدہ مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ ہموار کرے گا۔ متحدہ عرب امارات کی طرح اب بحرین بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی، سلامتی، تجارتی اور دیگر تمام شعبوں میں تعلقات قائم کر سکے گا۔ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی دوسری عرب ریاست بن گئی ہے جب کہ مصر اور اردن کے پہلے ہی سے تعلقات تھے۔

دوسری جانب اعلی فلسطینی قیادت نے بحرین کے فیصلے کو ریاست فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے۔ ایران نے بحرین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بحرین بھی اسرائیلی جرائم میں حصہ دار ہے۔ ترکی نے بھی اپنے رد عمل میں بحرین پر تنقید کی ہے۔

اس ہفتے بائیس رکنی عرب لیگ کا اجلاس ہوا، جس میں فلسطین کی کوشش تھی کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین پچھلے ماہ طے ہونے والی ڈیل کی مخالفت کی جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ایک سابق اعلی اہلکار ساری نصیبہ نے کہا ہے کہ حالیہ پیش رفت سے فلسطینی قیادت کافی نالاں ہے، ”لیکن وہ عرب ممالک سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ نالاں نہیں۔ فلسطینی ہمیشہ ہی سے یہ کہتا آیا ہے کہ عرب ممالک نے ان کا ساتھ اس طرح نہیں دیا جس طرح انہیں دینا چاہیے تھا۔

سیاسی تجزیہ کار غسان خاطب کہتے ہیں، ”اس وقت عرب دنیا ہر قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ خطے کے کئی ملکوں کو مسلح تنازعات، سیاسی انقلاب، خانہ جنگی اور کشیدگی کا سامنا ہے۔ فلسطینی شہری عرب ممالک میں تقسیم کی قیمت چکا رہے ہیں۔

ایک مغربی سفارتی ذریعے نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر کہا، ”فلسطینیوں کے پاس اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ وہ اس لیے بھی پھنس گئے ہیں کیونکہ ان کے حقوق کی بات ترکی اور ایران کر رہے ہیں۔ ایران کے غزہ پٹی میں متحرک ایسے گروپوں کے ساتھ تعلقات ہیں، جنہیں مغربی ممالک اور اسرائیل جنگجو گروپ قرار دیتے ہیں مثلا اسلامک جہاد اور حماس۔

ترکی فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور ترک افواج لیبیا میں مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار غسان خاطب کے مطابق فلسطینیوں کو ایران، ترکی اور قطر سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ان کے عرب خلیجی ریاستوں کے ساتھ بڑے مسائل چل رہے ہیں: ”علاقائی سپر پاورز کے جھگڑوں میں پڑنا فلسطین کے مفاد میں نہیں۔ اگر ایران کا ساتھ دیا، تو سعودی عرب کی حمایت ختم۔ اور اگر ترکی کے ساتھ چلے تو اور کوئی ساتھ چھوڑ دے گا۔