بھر چونڈی شریف کے سجادہ نشین سے ایک فکری نشست کا احوال

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri

دنیا میں بے شمار انسان پیدا ہوئے جن میں سے اکثر ایسے ہوئے کہ ان میں کوئی کمال وخوبی نہیں اور بعض لوگ ایسے ہوئے جو صرف چند خوبیاں رکھتے تھے پیر میاں عبد الخالق القادری کی وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے پیر میاں عبد الخالق القادری تصوف کی دنیا کا ایک ایسا درویش ہے جسے دیکھتے ہی روح میں تازگی اور فرحت کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،پیر صاحب درویش منش اور سادگی کا پیکر ہیں ،آپ کا لہجہ دھیما، مزاج ٹھہراہوا ، اُمت مسلمہ کے لیے سوچتا ہوا ذہن،عشق رسول کے نغمے گاتی ہوئی زبان ، پر وقار چہرہ یہ ہے سراپا اس مردِ درویش کا، پیر میاں عبد الخالق القادری صاحب کی دانش گوہر سردیوں کی چاندنی اور جنگل کے پھول کی طرح ہے ۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افرادِ ملت ان کی بے داغ اور نکھری شخصیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پیر میاں عبد الخالق القادری صاحب بے پناہ صاحب ِ دست ِ سخا ہیں اور آج تک آپ کی دہلیز ِسخاوت سے کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ جاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا پیر صاحب بات کو روا یتی انداز میں نہیں کرتے مگر ان سے زیادہ روایت کی اہمیت کو کون جانتا ہے اور یہ ہم سب کا اعزاز ہے کہ قبلہ پیر صاحب ہمارے زمانے میں موجود ہیں لاکھوں کے جلسے میں آپ کی سحرانگیز شخصیت ایک مقناطیسی کشش رکھتی ہے دوران اجتماع یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاکھوں سامعین کے دل پہلو سے نکل کر سائیں بادشاہ کی مٹھی میںبند ہو گئے ہیں ۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کے بند دریچے کھولنے اور پا کیزہ و پختہ افکارکو جلا بخشنے کے لیے ”جامعہ صدیقیہ احیا ء الاسلام ”کی بنیاد رکھ کر قوم کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو نئی روشنیوں، نئے افکار اور نئی جہتوں سے روشناس کر دیا ہے قبلہ پیر صاحب کی اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کی گئی۔

سنجیدہ کوششیں صاحب علم اور فہمیدہ لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہیں ان کی مجالس میں بیٹھنے والے گواہی دیتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر علامہ اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آجاتا ہے
ہزار خوف لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہاہے ازل سے قلندروں کا طریق
جبینِ حیات پر اپنے قول و عمل کے ا ن مٹ نقوش مرتب کیے ہردور میں کلمہ حق کہا، پیر صاحب کی دلنواز باتیں سن کر روح کے دریچوں میں روشنی کی بہار آ جاتی ہے اور ایک انوکھی چمک جذبوں میں کوند جاتی ہے بھر چونڈی شریف کے خانقاہی قبیلے کا یہ بزرگ تصوف کی آبرو ہے او ریہ کہ
رُکے تو چاند چلے تو ہوائوں جیسا ہے
یہ شخص جو دھوپ میں چھائوں جیسا ہے
زیر نظر ان کی کھری کھری اور اُجلی نکھری باتیں ہمیں ایک نئی منزل کا پتہ دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں آئیے آستانہ عالیہ بھر چونڈی شریف کے سجادہ نشین اور مرکزی جماعت اہلسنت کے امیرپیر میاں عبد الخالق القادری کی ر وح پرور باتیں سنتے ہیں۔

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri Nouman Qadir

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri Nouman Qadir

پیر صاحب کچھ اپنے ابتدائی حالات کا مختصر خاکہ بیان فر مائیں ؟
پیر عبد الخالق قادری صاحب کہنے لگے کہسب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے ناچیز کو موقع عطا فرمایا1960ء میں خاندان کے جھگڑوں کی وجہ سے حالات درست نہ تھے آپس میں بھائیوں کی لڑائی کی وجہ سے 1962ء میں ہم لوگ خانقاہ کو چھوڑ کر کشمور چلے گئے تھے پھر وہاں سے ڈہرکی آکے ٹھہرے ،کشمور میں ہمارے حالات ایسے تھے کہ کبھی کبھی ایک وقت میں ایک ہی روٹی نصیب ہوتی تھی مجھے یاد ہے کہ نمک کو اوکھلی میں کوٹ کر ایک روٹی کے ساتھ کھاتے تھے اور ہماری والدہ مرحومہ فر مایا کرتی تھی کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھا نا چاہیے اس سے پیٹ بھر جاتا ہے اور ہم ہر لقمے پر بسم اللہ پڑھا کرتے تھے تاکہ پیٹ بھر جائے ، ڈہرکی آکر بکریاں چرایا کرتے تھے اور اس سے جو اجرت ملتی تھی اس سے پیٹ پوجا کی جاتی تھی ، ڈہرکی میں استاذ حافظ اللہ بخش اویسی رحمتہ اللہ علیہ سے میں نے اردو ، فارسی ، ، بہار شریعت کو پڑھا اور ان کا پڑھایا گیا سبق آج تک یاد ہے۔

س۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خانقاہی نظام کے سجادہ نشینوں کا عصری علوم سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے اگر ضروری ہے تو کیوں ؟
پیر عبد الخالق قادری صاحب فرمانے لگے بہت اچھا سوال ہے صرف سجادگان کاہی عصری تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص کا ہم آہنگ ہونا بہت ہی لازم ہے بلکہ اگر یو ں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اور عصری تعلیم لازم و ملزوم ہیں ہماری خانقاہوں میں عموماََ جس نظریے کا پر چار ہوتا ہے اس کا دائرہ کار صرف اپنے حلقہ ارادت تک محدود ہوتا ہے اگر اس آفاقی اور عالمگیر نظریے کو بین الاقوامی سطح پر نمایا ں کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں اور جب تک کسی بھی شعبہ کو اپنے خول کے اندر بند رکھیں گے اس کے اثرات اور فیوض و بر کات اس خول سے باہر نہیں نکل سکتے ، امریکہ اور یورپ میں اگر آپ انہی کی زبان میں اپنے نظریے اور عقیدے کا پر چار کریں گے تو لوگ بہت جلد آپ کے قریب آئیں گے اور آپ کے پیغام کو بھی احسن انداز سے سمجھیں گے آج ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے عصری تعلیم سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کہ ہم کلیتاََ عصری تعلیم سے غافل ہیں اکثر خانقاہوں پر تعلیمی کام نہیں ہو رہاہے تعلیمی کام سست اور نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے کہ لوگ تصوف کو خارج از اسلام قرار دے رہے ہیں اور اس کے خلاف بہت سے محاذوں پر حملے ہو رہے ہیں جن کا مقابلہ کرنا عصری تعلیم سے عاری خانقاہوں کے سجادگان کے بس میں نہیں ہے۔

جبکہ غیر مقلد اور بد عقیدہ لوگ اس سلسلے میں بہت آگے جا رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غافل ہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور چا روں طرف ہماری نظریں ہیں جبکہ اسلام کی بہتر خدمت ہمارے اکابرین نے کی جن میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا نام سرِ فہرست ہے جن کے دست ِ حق پرست پر لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ، ہمارے ہاں تعلیم کا فقدان ہے ، دینی تعلیم بھی ناپید ہے اور عصری تعلیم سے تو ہماری بیشتر خانقاہیں کوسوں دور ہیں بلکہ بعض خانقاہیں تو عصری تعلیم کو چھوت کا درجہ بھی دیتی ہیں اپنے اسلاف کی تعلیمات سے نا بلد ہیں اس بناء پر ہم پر حملے ہو رہے ہیں لہذا ان حملوں سے بچا ئو کا اک ہی طریقہ ہے کہ خانقاہوں کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کیا جائے عصری تعلیم کونظر انداز کر کے ہم دور ِ جدید کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے ہمارے ہی اکابرین تھے جنہوں نے اقتصادی ، سائنسی ، فنی اور دیگر علوم میں اپنے جوہر دکھا ئے ان میں سرِ فہرست بو علی سینا ، رومی رحمتہ اللہ علیہ ، رازی رحمتہ اللہ علیہ ، غزالی رحمتہ اللہ علیہ اور امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیات نظر آتی ہیں۔

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri

Peer Mian Abdul Khalik AlQadri

س۔پیر صاحب ، خانقاہوں کے ساتھ دینی مدارس کا جو تعلق تھا ماضی میں اس کا حوالہ ملتا ہے مگر دور ِ حاضر میں یہ تشخص ناپید ہے آخر اس کی وجہ ؟
پیر عبد الخالق قادری !آپ نے صحیح کہا، بہت کم تعداد میں ایسی خانقاہیں ہیں جن کے ساتھ درس گاہیں بھی قائم ہیں ، ہمیں جو سب سے بڑا حوالہ ملتا ہے وہ ”صفہ اکیڈمی ” ہے ، مسجد نبوی کے چبوترے پر قائم عظیم الشان روحانی وعلمی درس گاہ جہاں پر رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کو روحانی تعلیم سے نوازتے تھے اسی چبوترے پر دی گئی تعلیم کا ہی اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھہ اسلام کے فروغ کے لیے شرق تا غرب پھیل گئے اور آج اسلام کی نورانی کرنیں انہی کے دم قدم سے پھوٹ رہی ہیں جب سے ہم نے مسجد اور خانقاہ سے درس گاہوں کو علیحدہ کیا ہے اس وقت سے ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور آج ایسی نسل تیار نہیں ہو رہی جو آگے چل کر ملک و قوم کا نام روشن کر سکے اور حقیقی معنوں میں اسلام کا چہرہ نمایاں کر سکے۔

خانقاہ اور درس گاہ کو علیحدہ کرنے کا نتیجہ ہی ہے کہ آج اکثر خانقاہوں (الا ما شا ء اللہ )کے سجادگان دینی اور عصری تعلیم سے نا بلد نظر آتے ہیں ،الحمد للہ !ہم نے با قاعدہ ایک پر وقار نظام کے تحت درس گاہ اور خانقاہ کو یکجا کیا ہوا ہے اور ہماری خانقاہ کے زیر ِ اہتمام تقریباََ 200 سو مدارس قا ل اللہ و قال الرسول ۖ کی صدایء دلنواز بلند کر رہے ہیں اور ہم نے کراچی میں کلفٹن کے نزدیک 8کنال پر مشتمل ”جامعہ صدیقیہ الا سلامیہ ”قائم کی ہے جس میں 200طلبہ زیر تعلیم ہیں ہم نے خانقاہ کے ساتھ ایک بہت بڑی لائبریری بھی قائم کی ہوئی ہے جس میں کم و بیش ہر مو ضوع پر ہزاروں کتب موجود ہیں اور اس لائبریری سے جامعہ میں پڑھنے والے طلبہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے محقق بھی ریفرنسز کے لیے ہماری لائبریری سے مستفید ہوتے ہیں ا ور میں جہاں کہیں بھی تبلیغی سلسلہ میں جا تا ہوں تو اپنے ساتھ ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں مالیت کی کتابیں بھی ساتھ لاتا ہوں

س۔آپ یہ سب کچھ کیسے manageکرتے ہیں ؟
پیر عبد الخالق قادری !الحمد للہ ! ہم یہ سب کچھ اپنی جیب سے کرتے ہیں اور آج تک کسی سے چندہ نہیں مانگا ، نہ تو ہم گورنمنٹ سے امداد لیتے ہیں اور نہ کبھی لینے کا سوچا ہے اپنی مدد آپ کے جذبے کی بنیاد پر کارِ خیر اور صدقہ جاریہ سمجھ کر تعلیمی اور روحانی کام کر رہے ہیں ہم کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنے اسلاف کی شان میں توہین سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے اسلاف نے کبھی بھی کسی دنیا دار کے آگے اپنی مشکلات بیان نہیں کیں بلکہ جو بھی مانگا جس وقت مانگا اپنے کریم رب سے مانگا اور اُسی کی بارگاہ میں دست ِ سوال دراز کیا اور رب تعالیٰ نے بھی اُنہیں طلب سے زیادہ ہی عطا فر مایا اور ایک وقت آئے گا ہم اپنی خانقاہ کے ساتھ ایک عظیم الشان یو نیورسٹی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جہاں پر دینی اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ تصوف کی تعلیم کا بھی خاص شعبہ قائم کیا جائے گا جہاں پر نوجوان نسل کو حقیقی معنوں میں تصوف کی روح سے آشنا کیا جائے گا۔

س۔تاریخی شخصیت ؟
پیر عبد الخالق قادری ! اسلام میں تو خالد بن ولید ، سعد بن ابی وقاص اور اپنے مرشد حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے کافی متاثر ہوں ، میں نے بد قسمتی سے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کو اتنا زیادہ نہیں پڑھا ، سید محمد راشد شاہ رحمتہ اللہ علیہ ، سید محمد حسن شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت حافظ محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ شامل ہیں جن سے میں متاثر ہوں ان سب شخصیات کا تعارف کسی نہ کسی حوالے سے معروف ہے۔

س۔اتحاد ِ اہلسنت کے حوالے سے آپ کے ذہن میں کوئی آئیڈیا ؟
پیر عبد الخالق قادری ! اہلسنت کے تمام لیڈران اپنی اپنی اَنا اور ضِد چھو ڑ دیں ، مسلک کے مفادات اور نظریے کی بقاء کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو جائیں اور اہلسنت کی قیادتوں سے عوام ِ اہلسنت سوال کرے کہ وہ کونسی چیز ہے جو اتحاد میں رکاوٹ ہے ہاتھ اور قدم دونوں طرف سے بڑھنا چاہیے تب اہلسنت میں اتحاد ہو سکتا ہے اور اُن احباب کو بھی بے نقاب کرنا چاہیے جو اتحاد اہلسنت کی راہ میں رکاوٹ ہیںاور اہلسنت کا نام استعمال کرکے امریکی سفیروں کے گھر کے طواف کرنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیں۔

Shah Ahmed Noorani

Shah Ahmed Noorani

س ۔علامہ الشاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کو کیسا پایا ؟
پیر عبد الخالق قادری !امیر اہلسنت قبلہ علامہ الشاہ احمد نورانی کا وجود اہلسنت کے لیے غنیمت تھا اور آپ ایک شجر ِ سایہ دار کی حیثیت رکھتے تھے آپ کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہلسنت کے لیے کی گئی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور آج تک پاکستان کی کوئی بھی ایجنسی اور ادارہ قبلہ علامہ الشاہ احمد نورانی کی شخصیت پر کرپشن کے حوالے سے اُنگلی نہیں اُٹھا سکا ہے قبلہ علامہ الشاہ احمد نورانی کے وصال سے اہلسنت ہی نہیں بلکہ دینی تاریخ میں ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو مدتوں پر نہیں ہو گا۔

س۔علماء اور صوفیا ء کے درمیان موجود خلیج کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے ؟
پیر عبد الخالق قادری !عرض ہے کہ صوفیاء عظام نے شروع میں جو کام کیا تھا اور اپنے کردار کی بنیاد پر اسلام میں ایک روح پھونک دی تھی اور چہار دانگ ِ عالم میں اسلام کی کرنیں پھوٹنے لگی تھیں وہ کام آج ہمارے دور کے مشائخ عظام اور ”صوفیاء عظام سر انجام نہیں دے رہے ، موجودہ دور کا شیخ صرف اور صرف اپنے مریدوں کی تعداد کی بڑھوتری میں مگن ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے میرے احباب ِ طریقت میں اضافہ ہو جائے اسے اس چیز سے کوئی غرض نہیں ہے کہ سوسائٹی آئے روز کردار کے میلے پن کا شکار ہو رہی ہے اسے کس طرح اُجلا بنا نا ہے ، گھوڑوں کو پالنا ، کتوں کو پالنا ، لینڈ کروزر کا شوق پورا کرنا اور آئے روز گاڑیاں بدلنے کا رحجان ، اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے۔

اگر سچ کہوں تو الا ما شا ء اللہ کثیر تعداد ایسے جعلی اور دس نمبریے پیروں کی بھی ہے کہ اتنی تو گاندھی نے دھوتیاں بھی نہیں بدلی ہوں گی جتنی ان ڈبہ پیروں نے ”بیویاں ” بدلی ہیں ، ہمارے اسلاف اپنے مریدین کو عقیدت مندوں کی ایک جماعت تصور کرتے تھے اور جماعت کی خدمت کرنا فرض سمجھتے تھے اسی طرح علماء کرام بھی اپنا کردار کماحقہ ادا نہیں کر رہے اکثریت جاہل علماء کی ہم پر مسلط ہے ، آج علماء ، صوفیاء کے کام میں اور صوفیاء ، علماء کے کاموں میں روڑے اٹکاتے ہیں لہذا اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے جس کا خاتمہ بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے بہت سے پیروں کے ایسے مرید بھی ہیں جنہیں کلمہ ، نماز کا با لکل ہی پتہ نہیں ہے بس پیر نذرانے وصول کرنے اور دم و تعویز میں مشغول ہے اسے اپنے مرید کی روحانی و اخلاقی تربیت کی کوئی فکر نہیں ہے علماء اور مشائخ کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے سو سائٹی کے سدھار میں اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔

س۔مروجہ خانقاہی نظام سے آپ مطمئن ہیں ؟
پیر عبد الخالق قادری ! جی نہیں ! مروجہ خانقاہی نظام سے کوئی بھی ذی شعور اور ذی کردار مطمئن نہیں ہے کیونکہ ہم نے من حیث القوم اپنے کردار اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ہم نے اپنے اسلاف کے دیے ہوئے اسباق بھلا دیے ہیں جس کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن اس بات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف اور اکابرین کے دیے ہوئے سبق کو یاد رکھا ہوا ہے اور ہماری خانقاہ ایک مثالی خانقاہ ہے اپنے اسلاف کے سالانہ اعراس کے موقع پر شریعت کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنے مریدین کی اخلاقی و روحانی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور تمام تر غیر شرعی اور غیر اخلاقی رسوم سے پرہیز کیا جاتا ہے بلکہ اپنے اجتماع میں ایسی خرافات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مریدوں کو اپنے اسلاف کے دیے گئے سبق کی دہرائی کرائی جائے کیونکہ ہمارے اجتماع میں دنیا بھر سے معروف سکالرز ، دانشور ، کالم نگار ،علماء کرام اور مشائخ عظام تشریف لاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر خطاب فرماتے ہیں جس سے تشریف لانے والے عقیدت مند اور عاشقان ِ مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستفید ہوتے ہیں

Hazrat Ghaous e Azam

Hazrat Ghaous e Azam

س۔حافظ الملت فائونڈیشن کے قیام کا مقصد کیا ہے ؟
پیر عبد الخالق قادری !حافظ الملت فاؤنڈیشن کے قیام سے پہلے حافظ الملت اکیڈمی کام کر رہی تھی اور اس اکیڈمی کے اغراض و مقاصد میں بالخصوص یہ بات شامل تھی کہ نوجوان نسل کی تربیت کا فریضہ اور اپنے اسلاف کی ملک و ملت کے لیے خدمات کو تحریری انداز سے شائع کرا کر اُمت کے سامنے پیش کیا جائے بعد میں حافظ الملت اکیڈمی کو حافظ الملت فائونڈیشن میں convertکر دیا گیا ،الحمد للہ ، اب تک حافظ الملت فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے 15کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن میں جام ِ عرفان ، عباد الرحمن ، نفحات الرحمن ، پیر عبد الرحیم رحمتہ اللہ علیہ شہید ، ملفوظات ِ مالکان ،احوال و آثار سید حسن شاہ گیلانی ، میلاد کی مقدس محفلیں ، رسالو سلوک جو ، اختلافی مسائل ، شمس الطریقت و شریعت حضرت حافظ الملت وغیرہ شامل ہیں اور جامعہ صدیقیہ احیاء الاسلام کے ناظم اعلیٰ عبد المالک سائیں المعروف مجن سائیں احباب کی مشاورت سے بہت ہی احسن انداز سے اس تصنیفی ، تخلیقی اور تحقیقی کام کو آگے بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو ماشاء اللہ دینی و اعلیٰ عصری تعلیم سے بہرہ ور ہیں اور مختلف زبانوں پر بھی انہیں عبور حاصل ہے عنقریب حضور غوث الاعظم ،قندیل نورانی ،شہباز لامکانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمات پر ایک منفرد کتا ب مارکیٹ میں لانے کا پروگرام ہے۔

س ۔آپ کی پسندیدہ کتاب ؟
پیر عبد الخالق قادری ! سید غوث علی شاہ پانی پتی کی کتاب ”تزکرہ غوثیہ ”کو بہت پسند کرتا ہوں بلکہ بے شمار مرتبہ اس کا مطالعہ بھی کیا ہے اور ہر مرتبہ ایک نیا رنگ اور ذوق پایا ہے بلکہ اس کتاب کو اگر نصاب کا حصہ بنایا جائے تو نوجوان نسل تصوف کی اصل روح سے آشنا ہو سکتی ہے۔

س۔ خوشبو کونسی پسند کرتے ہیں ؟
پیر عبد الخالق قادری ! خوشبو لگانا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے مجھے ذاتی طور پر عطر ِ خس اور عود و عنبر بہت پسند ہے اور بہت ہی اہتمام سے استعمال کرتا ہوں
س۔ پسندیدہ شعر ؟
پیر عبد الخالق قادری ! اِتھاں میں مُٹھڑی نِت جان بلب
اوتاں خوش وسدا وچ ملک عرب
تتی تھی جوگن چو دھار پھراں
ہند سندھ ،پنجاب تے ماڑ پھراں
سُنج ، بر تے شہر بازار پھراں
متاں یار مِلم کہیں سانگ سبب
توڑے دِکھڑے دھوڑے کھاندڑی آں
تیڈے نام توں مُفت وکاندڑی آں
ہم در دے کُتیاں نال ادب
متاں یار ملم کہیں سانگ سبب

س۔پسندیدہ شہر ؟
پیرعبد الخالق قادری !عقیدت و محبت کا مرکزمدینہ شریف ہی ہے یہ وہ خطہ پاک ہے جہاں اِک نگاہ گنبدِ خضراء پر پڑتی ہے تو انسان کسی دوسری کائنات میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے جسم پر کپکپی ، آنکھوں میں آنسو ، دل کی دھڑ کنیں غیر متوازن ، ندامت کے پسینے میں شرابور اور قلب و ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ اب گنبد ِ خضراء قریب آرہا ہے کس منہ سے اس کائنات کے آقاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بار گاہ قُد سیت میں حاضر ہوں اور اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے حافظ مظہر الدین کے بقول
اے زائر ِ درگاہ ِ نبی جائے ادب ہے
آئے نہ تیرے دل کے دھڑکنے کی صدا

Hazrat Muhammad SAW

Hazrat Muhammad SAW

س۔آپ کیا سمجھتے ہیں معاشرہ کے سُدھار کے لیے کیا ہونا چاہیے ؟
پیر عبد الخالق قادری ! جس نے بھی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کر کے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرزِ جاں اور وردِ زباں بنایاہے اس پہ لازم ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی تمام تعلیمات کو اپنے خیالات و افکار کا محور و مرکز بنائے، کیونکہ اسلام ”سلمُُُ” سے مشتق ہے جس کا معنی سلامتی ہے اور سلامتی سے رواداری جنم لیتی ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرے میں آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں انہی شخصیات کو دیکھ ہی لوگوں نے اپنی سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے اگر کسی مسجد کا امام ، کسی منبر کا خطیب ، کسی مکتب کا معلم، کسی خانقاہ کا سجادہ نشین اخلاقیات ورواداری کے سانچے میں ڈھلا ہو گا پھر اس کے پیروکار بھی اس سانچے میں اپنے آ پ کو ڈھالنے کی کوشش کریں گے یاد رکھیے، افراد ہی سے معاشرہ تشکیل پاتاہے اور افراد کی تربیت کے لیے مختلف سطحوں پر ادارے کام کررہے ہیں معاشرے میں صرف رواداری ہی نہیں بلکہ محبت، بھائی چارہ، حسنِ سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ بھی پیدا کرنا ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے اگر ہر بندہ انفرادی سطح پر بھی رواداری کی سوچ کو اپنانا شروع کر دے تو آج ہمارا معاشرہ جنت نظیر کا منظر پیش کر سکتا ہے مگر بد قسمتی سے ہر بندہ دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہر شخص کی خواہش ہے کہ معاشرہ سدھر جائے مگر کوئی بھی شخص خود کو تبدیل کرنے اور سدھارنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔بقول اقبال
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

س۔اسلام تحمل و برداشت کی تلقین کرتاہے، مگر راہنمایان ِ قوم میں یہ جذبہ مفقود ہے ؟
پیر عبد الخالق قادری !آپ نے درست فرمایا کہ اسلام تحمل و برداشت کا سبق دیتا ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ کشورِ حسین ، مرکزِ یقین، پاک سرزمینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باگ ڈور قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد غلط ہاتھوں میں چلی گئی۔ پاکستان کے اقتدار کی مُنڈیروں پر تحمل و برداشت، صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کے دیے جلانے کی ضرورت تھی مگر ناہنجار، گنوار اور اجڈ ”راہنما یان قوم” نے ہمیشہ قوم کو فسادات میں الجھائے رکھا کہ قوم ان چکروں میں گھومتی رہے اور ہم اپنا مقصد پورا کرتے رہیں یعنی اپنی خالی تجوریوں کو بھرتے رہیں اور تو پھر ہمارے اندر من حیث القوم تحمل و برداشت کا جذبہ مفقود ہی ہونا ہے جب Rule of Law یعنی قانون کی بالا دستی کی بات کی جاتی ہے تو اس سلوگن کے لوازم میں یہ چیزیں از خود شامل ہوجاتی ہیں کہ جُرم جُرم ہے خواہ کسی سے سرزد ہو مجرم کو بچانے کے لیے سفارش ڈھونڈنا گو یا قانون کو بالادست نہیں بلکہ زیرِ دست کرنے کا حربہ ہے قانون کی حرمت اور اس کی بالادستی کا تصور خواہ وہ قانون God of Made ہو یا Man of Made دونوں کی بالادستی اور پاسداری از حد ضروری ہے قانون پر عملدارآمد ہی سے معاشرے میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

مگر جب ان قوانین کے اندر اے کلاس، بی کلاس اور سی کلاس کی کیٹگریز قائم کردی جاتی ہیں تو پھر اس سے فسادات اُبھرتے ہیں لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ قانون کو پھر اس سے فسادات اپنے ہاتھ میں لیں اور پھر ظاہر ہے جب لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا لیڈر عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان کو لیڈ کرتا ہے بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم تمام ذمہ داران، حکمران و افسرن و سیاستدان حضرات سے خالقِ کائنات اور اس کے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور قسم دے کر ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کا عمل اس پیمانہ یا معیار پر اترتا ہے امیر و غریب مجرم کے ساتھ اس ملک میں ایک جیسا سلوک ہو رہا ہے ملکی سیاست میں کوئی بھی ممبر مخالف کے ساتھ ہو تو برائیوں کا مرکز ہے اور وہی ممبر جماعت چھوڑ کر لوٹا ہو جائے تو اُسے چوم کر آنکھوں پہ بٹھا یا جاتا ہے کیا یہ اسلام کے عین مطابق ہے۔

س۔پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حفاظت کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
پیر عبد الخالق قادری :آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رکھی گئی ہے اور اسلام اس کرۂ ارض پر بسنے والی تمام مخلوق کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری کا درس دیتاہے اسلام میں تو جانوروں تک کے حقوق ، درختوں تک کے حقوق بیان کیے گئے ہیںمملکت پاکستان کے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں اسلامی ریاست کے حاکمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کریں وطن عزیز میں اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے مطابق آزادی حاصل ہے کہ وہ اس پر عمل کریں، ہندوئوں کے لیے الگ مندر، عیسائیوں کے لیے الگ گرجا گھر اور سکھوںکے لیے الگ گرد وارے موجود ہیں۔

Hazrat Muhammad SAW

Hazrat Muhammad SAW

س۔ مذہبی راہنماء اسلام کا خدمت انسانیت کا پہلونمایاں کیوں نہیں کرتے؟
پیرعبد الخالق قادری :بہت خوبصورت اور حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا گیا ہے آپ بالکل درست فرما رہے ہیں عالم کائنات میں سب سے حسین، پروقار اور پرکشش مذہب دینِ اسلام ہی ہے اور بانی اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا ہر پہلو تابناک ، روشن ، تابندہ، رخشندہ اور درخشندہ نظر آئے گامیں نہایت معذرت سے بصد احترام عرض کروں گا کہ ہمارے ”سرکاری” علماء اور”درباری ” مشائخ نے اسلام کے خدمت انسانیت کے پہلو کو نمایاں کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے مگر آج بھی کثیر تعداد میںسکالرز، دانشور، قلم کار، جینوئن علماء کرام اور جید و معتبر مشائخ عظام نے اسلام کے انقلابی اور آفاقی چہرے کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج جو یورپ اور امریکہ کی گھٹا ٹوپ وادیوں میں اسلام کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں یہ سب جینوئن علماء کرام اور جید مشائخ عظام کی شبانہ روز کاوشوں اور محنتوں کا صلہ ہے اور گھر گھر سے اسلامی و نظریاتی افکار کے اُجالے پھوٹ رہے ہیں تو یہ سب اسلام کی انسانی اور انقلابی تعلیمات ہی کا فیضان ہے اور سیرتِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسل کا وہ کرشمہ ہے کہ جب خمیر مسلم تعصب کی عینک اُتار کر مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے اذہان و قلوب سے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے تعصب کی دُھول چھٹتی چلی جاتی ہے اور ان پر وہ وہ چیزیں آشکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔

جو ان کے اذہان کے بند دریچے کھولنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ہمارے علمائ، خطبائ، مقرررین کی برکتوں سے اسلام پھیلا مگر آہستہ آہستہ دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوںسے درسگاہ اور خانقاہ کو الگ کرنے کی سازش تیار کی گئی دین کو سیاست سے جُدا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اسلامی صف میں نااہل، کم علم بے عمل جہلاء کو پیر یا عالم یا مقرر کا لبادہ اوڑھا کر ان صفوں کو بدنام کیا گیا ہر سیاسی جماعت نے اپنے ہاتھوں سے علماء و مشائخ بنائے جنکی ”ذات مبارکہ” اور ماضی عوام کے سامنے ہے ان ایجنسی میڈ علماء مشائخ نے اسلام کا انسانی اور انقلابی چہرہ نمایاں نہیں ہونے دیاآج بھی بڑی بڑی مساجد میں حکومت نے اپنی مرضی کے علماء کو خطیب مقرر کیا ہوا ہے جو ان کی مرضی سے ان کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں اس ملک میں کیا صاحبِ علم اور باعمل لوگ نایاب ہیں۔

س۔کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کو ختم کرنے کے عزائم رکھنے والی قوتیں ہمارے مذہبی نفاق کو استعمال کر رہی ہیں جبکہ مذہبی جماعتیں پاکستانیوں کو اچھے مسلمان اور انسان بنانے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کی جانب راغب کرنے میں مصروف ہیں ؟
پیرعبد الخالق قادری :اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کمزور کرنے والی طاقتیں یہود و ہنود کی چھتری تلے پاکستان کے قیام کے اول روز سے اپنے مکروہ اور بھیانک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شبانہ روز مصروفِ عمل ہیں کبھی وہ شیعہ سُنی فسادات کا کھیل شروع کرا دیتی ہیں کبھی سُنی وہابی کی جنگ کا کھیل کھیلنے لگ جاتی ہیںتو کبھی ان تینوں کو آپس میں لڑانے کے لیے اپنے متعفن زدہ ذہن سے منصوبہ سازی کرتی رہتی ہیں۔ مگرتمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ ”دینِ اسلام پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف اُٹھنے والی آنکھ پھوڑ دیں گے۔”آج اگر آپ کو اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائے دلنواز سنائی دے رہی ہے تو یہ صرف اور علماء کرام اور مشائخ عظام کی شہانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
ہے غنیمت کہ سکتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوئے ہوئے بازار سے اور کیا چاہتے ہیں

Pakistan

Pakistan

وطن عزیز میں قادیانیت نواز لابی پاکستان کو ختم کرنے کے عزائم رکھتی ہے کیونکہ جب سے پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم ڈکلیر کیا ہے اس دن سے یہو دوہنود کی سرپرستی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کی تمام مذہبی جماعتوں کا خدا ایک، رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک، قرآن ایک، کعبة اللہ ایک ہے۔

چند ایک فروعی اختلافات ہیں جن کو ہوا دے کر غیر فائدہ اٹھاتا ہے۔ آج بھی اگر عظمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وطن عزیزکی سا لمیت کی بات ہو تو وطن عزیز کی تمام تر مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتی ۔ کندھے سے کندھا ملا کر چلتی ہیں۔ ہر مذہبی جماعت کا اپنا اپنا طریقہ کار ہے علیحدہ علیحدہ نظامِ تربیت ہے جسکے تحت وہ پاکستانیوں کو ایک اچھا انسان اور مسلمان بنا نے کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں۔ مادر پدرآزاد این جی اوز اور امریکی راتب پر پلنے والی تنظیموں کے سامنے اگر مذہبی جماعتیں بند نہ باندھیں تو یہ کب کے پاکستان کے وجود کو بھی ہڑپ کر گئے ہوتے۔

س۔کیا آپ کو کبھی خریدنے کی کوشش کی گئی ہے ؟
پیرعبد الخالق قادری !دیکھیں جی !جب بھی آپ ملک و قوم کے مفاد میں کوئی بھی کام کرنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں اور وہ کام حکمرانوں کے مفاد میں نہیں ہوتا تو صاف ظاہر ہے کہ پھر حکومتی حصار میں قید مختلف ایجنسیاں حکمرانوں کے کہنے پر آپ کو اپنے مقاصد سے ہٹانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں جن میں تھریڈ کرنا ”بولی ” لگانا وغیرہ شامل ہو تا ہے میں نے حکومتوں کے ساتھ اختلاف رائے بھی کیا ہے اور ان سے اچھے تعلقات بھی رہے ہیں لیکن میں نے زندگی میں آج تک نہ تو ”سرکار” سے پلاٹ ، پٹرول ، ڈیزل اور پلازے کا پرمٹ لیا اور نہ کوئی سرکاری عہدہ قبول کیا۔

س۔جب آپ خلوت میں ہوتے ہیں تو کیا یاد آتا ہے ؟
پیرعبد الخالق قادری !اول تو اس ہنگامہ خیز اور مصروف ترین زندگی میں خلوت کے لمحات نصیب ہی نہیں ہوتے اگر خلوت میسر آبھی جائے تو پھر جس کے ہجر میں رومی و جامی رحمتہ اللہ علیہ ،سعدی و شیرازی، سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے روتے ہوئے زندگیاں گزاریں اپنے والد کریم رحمتہ اللہ علیہ اور دادا جان رحمتہ اللہ علیہ کو فراق کی تنہائیوں میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجر میں روتے ، تڑپتے دیکھا اسی کیفیت کو طاری کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

س۔آپ دوسرے ملکوں میں بھی جاتے ہیں ان ملکوں میں مذہبی رواداری نظر آتی ہے، اقلیتیں اپنے مذہبی امور میں آزادہیں غیر مسلم حکومتیں مذہبی رواداری قائم کر سکتی ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟
پیرعبد الخالق قادری !الحمدللہ میں نے عرب و عجم کا سفر کیا ہے اوربے شمار ممالک میں بسلسلہ تبلیغِ گیا ہوں ہر ملک کا اپنا کلچر اور آئین ہے جس کے تحت وہ کام کر رہا ہے جس طرح آپ نے فرمایا کہ اقلیتں اپنے مذہبی امور میں آزاد ہیں یہاں پر میں آپ سے اختلاف کروں گا نائن الیون کے واقعہ کے بعد یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے ، داڑھی اور مسلم نام یہود و ہنود کے لیے ایٹم بم ہے امن و سلامتی کے علمبرداراور اپنے ملک کے آئین اور نظم وضبط پر عمل پیرا مسلمانوں کو تنگ کیا جاررہا ہے ۔ اگر مذہبی رواداری ہوتی تو مسلمان اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ عبادات کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر اقلیتیں اپنے مذہبی امور کی ادائیگی میں آزاد ہیں آپ اس کا عملی مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں مگر امریکہ اور دیگر یورپین ممالک میں آپ کو اس طرح کی آزادی حاصل نہیں ہے جس طرح پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہے مگر پھر بھی الحمدللہ یورپ اور امریکہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا اعتراف امریکی نائب صدر بائیڈن جو بھی کر چکے ہیں۔

س۔اُمت مسلمہ کے نوجوانوں کے نام کوئی پیغام ؟
پیر عبد الخالق قادری !ملک کے دگر گوں حالات ،درد ناک اور اذیت ناک ہیں ، شہدائے پاکستان کی لاشوں اور ان کے خون سے رستے ہوئے جسموں کے ساتھ سیاست چمکائی جارہی ہے حکمران اپنا آقا و مولا واشنگٹن کو سمجھ بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی ہمارامقدر ٹھہری ہے میں اپنی قوم سے بنام ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپیل کرتا ہوں کہ وہ سچے دل سے بارگاہ ِ مصطفوی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ندامت کے آنسو بہا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرلے اورملک و قوم کی بقا کے لیے غیر شرعی اور غیر اخلاقی رسومات کا اپنے گھروں سے خاتمہ کردے اور حکمران بھی فضول خرچیوں کو بند کر کے ملک و قوم کی بہتری کے لیے سوچیں تاکہ ملک و قوم فلاح کی راہ پر گامزن ہو سکے (آمین)۔

تحریر : نعمان قادر مصطفائی

 

 

Nouman Qadir Mustafai

Nouman Qadir Mustafai