اقوم متحدہ اور انسانی حقوق

Pakistan

Pakistan

اس روز کوفی عنان مشرق وسطی کے دورہ پر تھے جنرل اسمبلی ویران اور سلامتی کونسل کی تمام نشستیں خالی پڑی تھیں بھارت اور پاکستان کے صحافیوں کو اقوام متحدہ نے بطور خاص مدعو کیا تھا ان صحافیوں کیلئے اقوام متحدہ میں متعین ایک اہم امریکی عہدیدار گرانٹ سمتھ کی طرف سے لنچ تھا جس نے روایتی کانفرنس بھی کرنا تھی میڈیا کے شعبہ میں جب صحافیوں کے خصوصی داخلہ کارڈز بن رہے تھے تو اچانک ایک کھلبلی مچ گئی ہر جانب سراسیمگی اور افراتفری کے آثار واضح ہونے لگے ایک امریکی خاتون بھاگتی ہوئی پاکستان کے میڈیا کے نمائندوں کے پاس پہنچی اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا افسوس ہے کہ آپ کی ملاقات گرانٹ سمتھ سے ممکن نہیں کیونکہ تمام دفاتر بند کیے جا رہے ہیں جب پاکستانی صحافیوں نے اس امریکی خاتون سے اس کا پس منظر جاننے کیلئے استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے تین گھنٹے بعد فلسطینیوں کا ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ہونے والا ہے۔

پاکستانی صحافی جب میڈیا مرکز سے باہر نکلے تو انہیں یو این او کی مرکزی عمارت کے سامنے کی شاہرات بلاک نظر آئیں ہر جانب پولیس ہی پولیس تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے یو این او کی عمارت پر کوئی دھشت گردی کا بڑا واقعہ ہونے والا ہے، سیکورٹی چوراہوں، فٹ پاتھوں پر سخت کردی گئی تھی آہنی رکاوٹیں ان چوراہوں، فٹ پاتھوں کے شروع میں موجود تھیں مگر ایک تعجب انگیز صورتحال یہ تھی کہ دنیا بھر کے نشریاتی اداروں کی گاڑیاں بھی قدم قدم پر اپنے نشریاتی آلات کے ساتھ نظر آئیں بی بی سی، سی این این، سی این بی سی، اے بی سی اور بے شمار عالمی نشریاتی اداروں کے صحافی کیمرے لٹکائے ہر جانب ٹہلتے نظر آ رہے تھے میرے ایک صحافی دوست جو کالم نگار بھی ہیں۔

دو قومی اخبارات کے مالک بھی وہ بھی پاکستانی میڈیا کے اس وفد میں شامل تھے ایسے مواقعوں پر اکثر جن کے اندر کا پاکستانی جاگتا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک پولیس آفیسر سے سوال کیا تھا کہ اتنی سخت سیکورٹی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ جب کہ یہ مظاہرہ باقاعدہ اجازت لیکر کیا جا رہا ہے اور یو این او کی عمارت سے خاصے فاصلے پر ہو رہا ہے اور اس میں صرف مقررین تقریریں ہی تو کریں گے پولیس آفیسر نے انتہائی محتاط لہجے میں میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہمارا کام اقوام متحدہ اور یہاں موجود ہزاروں ملکی اور غیر ملکی مندوبین کو محفوظ رکھنا ہے یہ ایک طرح سے باقاعدہ منصوبے کے تحت مسلمانوں کو دھشت گرد ثابت کرنے کی کوشش تھی یہ ساری سیکورٹی، یہ ساری افراتفری اس ایک مظاہرے کیلئے تھی جو فلسطینیوں نے اپنے اوپر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اور قتل عام کے خلاف آرگنائز کیا تھا۔

Palestinians

Palestinians

میرے دوست اعوان کا کہنا تھا کہ صرف ایک روز قبل یہودیوں نے ایک ایسا ہی مظاہرہ کیا تھا جن میں یہودیوں کی نہ صرف تعداد بہت زیادہ تھی بلکہ اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی سیکورٹی انتظام تھا اور نہ ہی عالمی میڈیا کے نمائندے اس کی کوریج کیلئے آئے تھے میں نے سیکورٹی آفیسر سے پوچھا تھا کہ جتنی سیکورٹی آج مٹھی بھر فلسطینیوں کے مظاہرے کو مانیٹر کرنے کیلئے ہے کیا اتنی سیکورٹی کے انتظامات یہودیوں کے مظاہرے کیلئے کئے گئے تھے سیکورٹی آفیسر نے میرے پاکستانی دوست صحافی کو غصہ سے ایسا دیکھا جیسے وہ کوئی بہت بڑا دھشت گرد ہو کئی روز پہلے یہودیوں کی موت کے بدلہ میں اسرائیلی فوجیوں نے 100 فلسطینیوں جن میں معصوم بچے، خواتین شامل تھیں کو شہید کر دیا تھا دو روز قبل عالمی میڈیا کے یہی نمائندے تھے جو آج گلوں میں کیمرے لٹکائے فلسطینیوں کو دھشت گرد ثابت کرنے آئے تھے عالمی ذرائع ابلاغ کے انہی نشریاتی اداروں نے جن پر یہودیت کا مکمل کنٹرول ہے دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کو 100 فلسطینیوں کی شہادت سے بڑا واقعہ بنا کرپیش کیا تھا یہ اکتوبر 2000 ء کی بات ہے۔

اقوام متحدہ نے سیکورٹی کے اتنے سخت انتظامات ان مٹھی بھر فلسطینیوں کو کنٹرول کرنے کا جوازبنا کر کیے تھے اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی اسی لئے مدعو کیا گیا تھا تاکہ دنیا کے سامنے یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمان دھشت گرد ہیں اس لیے سیکورٹی کے انتظامات کی یہ نوبت پیش آئی جب کہ یہودیوں سے دنیا کو اتنا خطرہ نہیں اسی لیے دو روز قبل کثیر تعداد میں یہودیوں کے مظاہرے کے دوران اقوام متحدہ نے ایسا ڈرامہ نہ رچایا میں اپنے دوست کی باتوں پر سوچ میں پڑ گیا کہ جب اقوام متحدہ کے ادارے کا وجود بنا تو بنیادی وجہ اقوام عالم کے حقوق کا تحفظ تھا مگر یہ کیسا ادارہ ہے جس کی پالیسیاں جابندار ہیں کرہ ارض پر اس کے جانبدار کردار کی وجہ سے کروڑوں لوگ سینکڑوں اقوام بے چین اور پریشان ہیں مسلمان اک عرصہ سے مظالم کی زدمیں ہیں اور جو قیامت ارض وطن پر ان دنوں برپا ہے امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں ہمارے لوگ جس طرح جھونکے جارہے ہیں ایسا اگر کسی امریکی ریاست یا یورپی ملک میں ہوتا تو دنیا کے جانبدار ادارہ انصاف کی جنرل اسمبلی میں ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔

سلامتی کونسل میں ایک قیامت مچ جاتی ظالم کا ہاتھ روکنے اور مظلوم کو سہارا دینے کی کاروائی اتنی برق رفتاری سے ہوتی کہ سب حیران رہ جاتے اقوام متحدہ کی ہرجانب بروقت کاروائی کے چرچے ہوتے مگر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے تسلسل پر یہ ادارہ خاموش ہے اس کے کسی کونے سے اس ظلم کے خلاف کوئی نحیف آواز نہیں اٹھتی دنیا بھر میں مسلمان زیرعتاب ہیں افعانستان میں 30 ہزار تازہ دم فوجی دستے زخم زخم افعانیوں پر ظلم آزمانے آگئے ایک بدمعاش ریاست ہے جو اقوام عالم کے اس فورم کے فیصلوں پر اثرانداز ہے یہ بدمعاش ریاست اپنی پسند کے خلاف کسی بھی فیصلے کو ماننے سے گریزاں ہے عراق کو دیکھ لیں ایک بدمعاش ریاست کے دبائو پر نام نہاد عالمی ادارہ انصاف نے ہنس بلکس کے ذریعے ہر وہ جگہ چھان ماری جہاں سے اسے کسی بھی کیمیائی یا ایٹمی ہتھیار کی شکل میں مزاحمت کا خطرہ لاحق نظر آیا۔

مکمل چھان بین کے بعد بدمعاش ریاست کو کسی مزاحمت کا اندیشہ نہ رہا تو ارض ابراہیم پر اتنا بارود برسایا کہ لاکھوں عراقیوں کے علاوہ چھ لاکھ بچوں کو بھی لقمہ اجل بنا ڈالا یہی کہانی لیبیا، افغانستان۔مصر میں دہرائی گئی مگر دینا بھر کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ظلم پرمہر بلب ہیں 14 سو برس قبل جب دین فطرت آیا تو ساڑھے آٹھ سو سال تک علم پر مسلمانوں کی دسترس رہی مگر اس کے بعد غیر مسلم اقوام ترقی پکڑتی گئیں اور مسلم قوم کو زوال آتا گیا آج دنیا بھر کے نشریاتی ادارے یہودیوں کی دسترس میں ہیں اور میڈیا کے ذریعے یہودیت اپنے مقاصد کی جنگ جیت رہی ہے اقوام متحدہ ایک بدمعاش ریاست کا ذیلی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی کی راہ پر سرپٹ بھاگ رہا ہے۔

M.R. Malik

M.R. Malik

تحریر : ایم آرملک