یورپ میں جوہری خطرات کی واپسی

Nuclear War

Nuclear War

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) جوہری ہتھیار سرد جنگ کا ایک نشان قرار دیے جاتے ہیں۔ حالیہ روسی دھمکی سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ ایک مرتبہ پھر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اس صورتِ حال میں یورپ کے پاس جوابی کارروائی کا سامان کیا ہے؟

یوکرینی جنگ سے قبل روسی صد ولادیمیر پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کو الرٹ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس اعلان سے سارا یورپ ششدر رہ گیا تھا۔ اوائل مارچ میں پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کی حامل آبدوزیں اور موبائل میزائل دستوں کو بھی فوجی مشقوں کا حصہ بنا دیا تھا۔ کیا یہ کسی جوہری حملے کی دھمکی تھی؟

روس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ان کی تعداد چھ ہزار تین سو بتائی جاتی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں امریکہ سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور ان کی تعداد پانچ ہزار آٹھ سو ہے۔ فرانس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا حجم تین سو ہے جبکہ برطانیہ دو سو پندرہ ایسے ہتھیار رکھتا ہے۔ ان ہتھیاروں کی حتمی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کی حامل اقوام اس بابت معلومات خفیہ رکھتی ہیں۔

بظاہر یورپ کو امریکہ کی جانب سے جوہری چھتری میسر ہے لیکن اس کے باوجود یورپ کسی جوہری حملے کو روکنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ایسا بھی گمان ہے کہ امریکی چھتری اس مفروضے پر کھڑی ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی بھی ملک مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ملک پر جوہری حملے کی جرات نہیں کر سکتا اور ایسی صورت میں جارح کو بھی جوابی حملے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

نیٹو کی جوہری قوت جوابی دھمکی یا ڈیٹرینس دینے کے مفروضے پر قائم ہے۔ فرانس اور برطانیہ کم از کم ڈیٹرینس پر انحصار کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس جوہری حملے کا جواب دینے کی صلاحیت تو کم از کم موجود ہے اور بقیہ یورپی ممالک کا انحصار امریکہ پر ہے۔

دوسری جانب امریکا کا ڈیٹرینس جوہری ہتھیاروں پر ہی منحصر ہے اور ان ہتھیاروں کی قوت بھی کم کی جا چکی ہے۔ امریکی عسکری ماہرین محدود جوہری جنگ کے ممکن ہونے کا مفروضہ پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔

قانونی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی شہری علاقے پر بھاری اثرات کے حامل جوہری ہتھیاروں کا استعمال انٹرنیشنل ہیومینٹیرین قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یورپی ڈیٹرینس میں جرمن حصہ

اگر یورپی جوہری ڈیٹرینس میں جرمن حصے کا جائزہ لیا جائے تو یہ صرف جرمن ایئر فورس کے زیرِ استعمال ٹورنیڈو جنگی جہاز ہیں۔ یہ جنگی جہاز جرمن ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں قائم بیوشل ایئر بیس پر کھڑے ہیں۔

کسی ہنگامی صورت حال میں یہ جنگی ہوائی جہاز امریکی جوہری ہتھیاروں کو لے کر ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کی مشق ٹورنیڈو جنگی جہاز سالانہ بنیاد پر جعلی بم پھینک کر بھی کرتے ہیں۔

نیدرلینڈز، بیلجیم اور اٹلی بھی نیٹو کے ایسی مشقوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس وقت ایک سو سے ایک سو پچاس جوہری ہتھیار یورپ میں ہتھیاروں کے مختلف گوداموں میں رکھے ہوئے ہیں تا کہ بوقت ضرورت جرمن طیارے انہیں ہدف کی جانب لے جا سکیں۔

برلن میں قائم جرمن انسٹیٹیوٹ برائے انٹرنیشنل اسٹدیز (SWP) اور سکیورٹی افیئرز کے پولیٹیکل سائنٹسٹ پیٹر روڈولف کا کہنا ہے کہ یہ بم گئے زمانوں کی یادگاریں ہیں اور ان کی فوجی اہمیت آج کے دور میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مبصرین کے مطابق ایسے بموں کے استعمال سے قبل دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو ختم کرنا بھی اہم ہے، جو مناسب صلاحیت سے ممکن ہے۔

جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ جوہری ڈیٹرینس میں جرمنی کے حصہ کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔ اسی دوران جرمن وزیر دفاع کرسٹینے لامبریشٹ نے کہا ہے کہ جرمن ایئر فورس کے عمر رسیدہ ٹورنیڈو طیاروں کی جگہ ان کا متبادل امریکی ساختہ ایف پینتیس جنگی ہوائی جہازوں کو شامل کیا جائے گا۔ یہ امریکی جہاز بھی جوہری ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جرمنی، اٹلی، بیلجیم اور نیدرلینڈز میں واقع گوداموں میں رکھے امریکی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں۔ پہلے وہ ان ہتھیاروں کو گودام سے نکالنے کی اجازت دیں گے اور پھر انہیں جنگی طیارے سے ہدف پر گرانے کی رضامندی ظاہر کریں گے۔ اس مناسبت سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا اصولی فیصلہ بھی درکار ہو گا۔

فرانس کی جانب سے اسی قسم کی کسی کارروائی کا اختیار فرانسیسی صدر کے پاس ہے اور برطانوی وزیر اعظم بھی ایسا ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌اختیار رکھتے ہیں۔ ان تین ملکوں کے ڈیٹرینس کی وجہ سے دشمن یا مخالف قوت اس کا احساس نہیں کر سکے گی کہ نیٹو کس سمت سے حملہ کرے گا۔