یورپ کا یوکرین کی درخواست پر سنجیدگی سے غور لازمی کیوں؟ تبصرہ

EU Summit

EU Summit

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ویرسائے میں یورپی یونین کے رہنماؤں کی سمٹ میں صرف یوکرین کی اس بلاک میں شمولیت کی درخواست پر ہی غور نہیں کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں مخصوص اقدار کی حامل ایک برادری کے طور پر یورپی یونین کے مستقبل کا تعین بھی کیا جائے گا۔

فرانسیسی شہر ویرسائے میں یورپی یونین کے آج جمعرات دس مارچ کو شروع ہونے والے دو روزہ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے اور اس بلاک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں ڈی ڈبلیو کے اوئگن تھائزے کا لکھا تبصرہ:

یورپی یونین اور یوکرین کے مابین 2014ء میں جب ایسوسی ایشن معاہدہ طے پایا تھا، تو یوکرینی سفارت کاروں نے یورپی بیوروکریٹس کے ساتھ اس معاہدے کی دستاویز کے ہر لفظ پر بحث کی تھی، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ یوکرین مستقبل میں اس بلاک میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اس دستاویز میں تحریری زبان کو چاہے جتنی بھی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا تھا، ایک بات اس میں بہرحال کھل کر نہیں لکھی گئی تھی۔ یہ کہ یوکرین واقعی یورپی یونین کا رکن ملک بن بھی سکتا ہے۔

اس معاہدے میں یونین نے تسلیم کیا، ”ایک یورپی ملک کے طور پر یوکرین کی تاریخ اور اقدار ویسی ہی ہیں، جیسی یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی اور یونین ان اقدار کی ترویج کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔‘‘ ساتھ ہی یونین کی طرف سے یہ بھی لکھا گیا، ”یوکرین یورپی شناخت کو جو اہمیت دیتا ہے، اس میں ہے تو بہت کچھ، تاہم اس میں یونین کی رکنیت کے ٹھوس امکانات نہیں ہیں۔‘‘

اب اگر یہ دیکھا جائے کہ یوکرین یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کی اپنی کوشش کی ٹھیک انہی دنوں کتنی بھاری قیمت چکا رہا ہے، تو یہ بات شرم ناک محسوس ہوتی ہے۔ ہزاروں یوکرینی باشندے اس لیے مر رہے ہیں کہ ان کے ملک نے ماسکو میں جابر حکمرانوں سے اپنا منہ موڑ کر ایک آزاد یورپ میں اپنے مستقبل کی خواہش کی۔ اس وقت روسی بمباری یوکرینی شہروں کو ملبے کے ڈھیر بناتی جا رہی ہے اور اگر یورپی یونین کے ساتھ کییف کے ایسوسی ایشن معاہدے کی زبان کو دیکھیں، تو یورپی یونین کی چالاکی کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یوکرین پر روسی فوجی چڑھائی کے چار دن بعد جب ماسکو کے ٹینک کییف کے مضافات کی طرف بڑھ رہے تھے اور یوکرینی دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کی صورت حال تھی، صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اپنے ملک کی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست پر دستخط کر دیے تھے۔ اس کے بعد اس درخواست پر یورپی پارلیمان کے ارکان اور یورپی میڈیا نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا، صرف وہی کافی نہیں ہو گا۔ یوکرین کو مستقبل میں اپنے لیے بہتر امکانات کی ضرورت ہے۔ اس امکان کا نام یورپی یونین کی رکنیت ہے۔

ویرسائے میں آج سے دو روز کے لیے یورپی یونین کے رہنماؤں کا جو سربراہی اجلاس ہو رہا ہے، اس میں صرف یوکرین کی اس بلاک میں رکنیت پر ہی بات نہیں ہو گی۔ اس سمٹ میں یونین کی مخصوص اقدار کی حامل ایک برادری کے طور پر مستقبل کی حیثیت کا تعین بھی ایجنڈے کا حصہ ہو گا۔

یورپی براعظم میں آج تک کسی بھی ملک نے اس بلاک میں اپنی رکنیت کی اتنی زیادہ قیمت نہیں چکائی جتنی کہ یوکرین نے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس کسی کو بھی یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی، اس نے پھر روسی صدر پوٹن کی یوکرین پر فوجی چڑھائی کے ظالمانہ اقدام سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں۔

روس کے خلاف لڑائی میں یوکرین کے عوام اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے ہر وہ چیز داؤ پر لگا رہے ہیں، جو ان کے پاس ہے۔ یوکرین کی یونین میں رکنیت کی درخواست اور اس بلاک میں شمولیت کے عملی امکانات کو مسترد کرنے والے اگرچہ کییف کی درخواست کو محض بحرانی حالات میں کیے جانے والے ایک علامتی سیاسی فیصلے کا نام بھی دے رہے ہیں، تاہم یورپی یونین کی طرف سے ایسا کوئی اعلان ایک مضبوط اشارہ ہو گا کہ جمہوری یورپ سب کا مشترکہ گھر ہے۔ صرف اسی ایک منطق کو دیکھا جائے تو یہی کافی وجہ ہے کہ یوکرین کو مستقبل میں اس بلاک کا رکن بننا چاہیے۔

یورپی یونین کی مکمل رکنیت ایک ایسی منزل ہے، جس کا راستہ ایک نہیں کئی نسلیں طے کرتی ہیں۔ یہ بہت جلد بازی میں مکمل کیا جانے والا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ یوکرین پر روس کا ممکنہ طور پر بہت طویل قبضہ اور پھر اس ملک کی تعمیر نو ایسے معاملات ہوں گے، جو اس سفر کی جلد اور آسان تکمیل کو مشکل تر بنا دیں گے۔ جنگ سے پہلے کے ان حالات سے کہیں زیادہ مشکل، جب کییف حکومت یونین کی ممکنہ رکنیت پر نظریں جمائے لازمی اصلاحات کی تیاریاں کر رہی تھی۔

بات یہ ہے کہ یوکرین کے عوام کو ان کے ملک کی یورپی یونین میں آئندہ شمولیت کی امید سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یونین کا ایک مجموعہ اقدار کی حامل برادری کے طور پر مستقبل میں بھی قابل اعتماد رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب برسلز یوکرین کو اکیلا نہ چھوڑے۔ کییف کے لیے رکنیت کے امکانات یونین کی طرف سے کریملن میں حکمرانوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہوں گے۔ اس لیے کہ یوکرین یورپی یونین اور روس کے مابین کوئی بفر زون نہیں ہے۔ یہ ملک یورپی خاندان کا حصہ ہے۔