یوکرین روس جنگ اور یورپی تعصب

Ukraine Russia War

Ukraine Russia War

تحریر: حاجی محمد لطیف کھوکھر

یوکرین کے معاملے میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے اپنی بے عزتی کروائی۔ اس سے پہلے بھی وہ کیوبا، ویتنام اور افغانستان کی دھول چاٹ چکا ہے۔ روسی رہنما ولادیمیر پوتن نے دنیا کے سب سے طاقتور اور ہر لحاظ سے مضبوط فوجی گروپ کو چاروں خانے چت کر دیا ہے۔ وہ ممالک جو روس سے الگ ہو کر نیٹو میں شامل ہو گئے تھے، اب ان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے۔ انہیں بھی یہ ڈر لگ رہا ہوگا کہ یوکرین کے بعد اب کہیں ان کی باری تو نہیں آرہی ہے۔افسوس یوکرینی صدر نیٹو اور اس کے حواریوں سے مدد کی اپیل کرتے رہے ۔اگر نیٹو اقوام ایماندار اور مضبوط ہوتیں تو وہ یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے فوری طور پر اپنی فوجیں وہاں بھیج دیتیں لیکن ان کا بغلیں جھانکنا پوری دنیا کو حیران کر گیا۔ درحقیقت اس جنگ میں امریکہ نے روس کو نئی عالمی طاقت بننے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

یوکرین تو سمجھ رہا تھا کہ امریکہ اس کا محافظ ہے لیکن امریکہ نے ہی یوکرین کو مروایا ہے۔ اگر امریکہ اسے نہ چڑھاتا تو اس کے صدر وی زیلینسکی ہر حالت میں پیوٹن کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاہدہ کر لیتے ۔جرمنی اور فرانس کے رہنماؤں نے ثالثی کی کوشش ضرور کی لیکن وہ کوشش ناکام ہی ہونی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک نیٹو کے اہم ستون ہیں اورنیٹو یوکرین کو اپنا رکن بنانے پر آمادہ ہے جو کہ اس جھگڑے کی اصل بنیاد ہے۔ اب اس جنگ کو ایک ہفتے سے زائد ہو گیا ہے۔ اب تک کی جنگ میں چھ لاکھ 80 ہزار یوکرینی افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 300 سے زیادہ یوکرینی شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔

یوکرین کی املاک اور ریاستی و عسکری ڈھانچے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔یورپی یونین اور امریکہ نے روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ روس کے بینکاری نظام کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے جدید ترین نظام ‘سوفٹ’ سے نکال دیا گیا ہے۔ روس کے مرکزی بینک کے بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ روس کے کمرشل بینکوں کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ روس سے اور روس کی طرف بین الاقوامی پروازیں بند ہو رہی ہیں۔ پیوٹن، اس کی کابینہ اور امیر ترین روسی کمپنیز پر بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین، یو کے اور کینیڈا یوکرین کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق روس نے اپنے ایٹمی اثاثوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ دنیا کے امن کو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ درپیش ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ امن پسند اور ترقی پسند سوچ غالب آئے اور جنگ کا خاتمہ ہو۔گرحالات میں فی الفور کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی تو عین ممکن ہے کہ یہ جنگ طول پکڑے گی اور ایک طویل مدتی خونریز جنگ ہوگی جس میں عام انسانوں کو بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور قربانیاں بھی عام لوگوں کو ہی دینی ہوں گی۔جنگ چاہے روس نے شروع کی ہو یایوکرین نے، اس جنگ میں جیت اور ہار چاہے روس کی ہو یا یوکرین کی ہو مجموعی طور پر یہ انسانیت کی ہار ہوگی اوراس کے نتائج پوری دنیا کو بھگتنے ہوں گے۔

حالانکہ جنگ شروع ہونے سے قبل ہی جس طرح کا ماحول بنا تھا، اس میں دنیا نے دیکھا کہ صرف جنگ کے خدشات کی وجہ سے عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں آگ لگ گئی اور خام تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی۔ تیل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کو پر لگ جائیں گے۔ مغربی ممالک میں روس کے اثاثے منجمد کردیے جانے کے سبب ڈالر کی قیمتوں میںاضافہ اور روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔اس سب کا اثر کمزور معیشت کو مزید بگاڑ دے گا۔ ـیوکرین جنگ نے بہرحال دنیا کے لیے ایک بہت سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے اور لوگ اسے ایک اور عالمی جنگ کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کولیبا نے یوکرین پر موجودہ راکٹ باری کا موازنہ جرمنی کے 1941 ء کے حملہ سے کیا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جس طرح دمترو کولیبا نے اس کا موازنہ دوسری عالمی جنگ کے واقعات سے کیا ہے اسی طرح عالمی سطح پر یہ سوال گردش میں ہے کہ کیا یوکرین پر روس کا حملہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ثابت ہو گا؟ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر تیسری عالمی جنگ (WWIII) کے ٹرینڈز بھی چل رہے ہیں۔حالانکہ یوکرین پر روس کے حملے اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہے لیکن اس تنازع کے عالمی سطح پر پھیلاوکے بارے میں کوئی حتمی رائے فی الحال قبل از وقت ہوگی۔ اس جنگ نے دنیا کے کئی ممالک بالخصوص خطہ (جنوب مشرقی ایشیا) کے ملکوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا، تاہم اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کا قیام آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ تیسری جنگ سے بچا جاسکے، طاقتور ممالک چھوٹے وکمزور ممالک کو مغلوب کرنے کی کوشش نہ کریں،تمام اقوام کو خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی برابر کا درجہ حاصل ہو،انسانی عظمت کا تحفظ ہواور تمام بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کیا جائے، تمام ممالک کو اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کا موقع ملے اور کوئی ملک بلا ضرورت طاقت کا استعمال نہ کرے، نہ کہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر لے جانے کے لیے۔مغربی طاقتوں، دیگر ممالک و نیٹوسے وابستہ ممالک نے بھی یوکرین روس تنازع میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔

دوسری جانب یوکرین پر حملے کے بعد مغربی میڈیا کی اس تنازع کی کوریج میں ‘تعصب’ اور ‘نسل پرستی’ عروج پر ہے۔تجزیہ کاروں ، رپوٹررز اور پروگرام کے میزبانوں کی جانب سے نہ صرف ‘یورپ’ کی جنگ کو ‘زیادہ’ بْرا قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کو دنیا کے باقی ممالک میں ہونے والے ہلاکتوں سے ‘زیادہ’ افسوسناک بتایا گیا، بلکہ اس تنازع کے باعث بے گھر ہونے والے افراد اور پناہ گزینوں کو ایشیائی ممالک کے پناہ گزینوں سے ‘بہتر’ بتایا گیاہے۔ امریکی چینل ‘سی بی ایس’ کے نمائندہ نے یوکرین کی صورتحال کا موازنہ مشرق وسطیٰ سے کرتے ہوئے کہا کہ ”روس کے حملے کے پیشِ نظر یوکرین میں لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور باصد احترام یہ کوئی عراق یا افغانستان نہیں ہے، جہاں تنازعے کئی دہائیوں سے جاری ہوں، یہ ان کے مقابلے میں زیادہ ‘تہذیب یافتہ’ اور زیادہ یورپی شہر ہے، جہاں آپ ایسا ہونے کی توقع نہیں کرتے”۔بی بی سی کے پروگرام میں شامل یوکرین کے حکومتی اہلکار کا بیان بھی ایسی ہی ‘نسل پرستانہ’ سوچ کی عکاسی کرتا ہے.

انہوں نے وہاں پر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ”یہ میرے لیے اس لیے بھی زیادہ جذباتی ہے کیونکہ نیلی آنکھوں اور گوری رنگت والے یورپی افراد اور بچے پیوٹن کے میزائلوں سے ہلاک ہو رہے ہیں”برطانوی اخبار ‘ٹیلی گرام’ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ”یوکرین جنگ اس لیے بھی ہمارے لیے بہت چونکا دینے والی ہے کیونکہ وہاں کے لوگ ہماری طرح نظر آتے ہیں۔ یوکرین یورپ کا ایک ملک ہے۔ اس کے لوگ نیٹ فلکس دیکھتے ہیں اور ان کے پاس انسٹاگرام کے اکاؤنٹ ہیں اور وہ آزاد اور شفاف الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں اور سنسرشپ کے بغیر اخبار پڑھتے ہیں”۔

چنانچہ اس نوعیت کے تبصروں کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا یورپ کے لوگ افغانستان، عراق اور شام کی جنگ سے صرف اس لیے نہیں چونکے، کیونکہ وہاں کے لوگ نیٹ فلکس نہیں دیکھتے تھے اور ان کے پاس انسٹاگرام کے اکاؤنٹس نہیں یا اس لیے کیونکہ یہ ملک یوکرین کی طرح یورپ میں واقع نہیں ہیں؟۔ روسی حملے کے بعد یوکرین کے شہریوں کی ایک بھاری تعداد نے پڑوسی ملک کا رخ کیا تو یورپ کے متعدد ممالک جن میں پولینڈ، آئرلینڈ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں، نے اپنے دروازے ان پناہ گزینوں پر کھول دیے ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں، جنہوں نے شام اور عراق جنگ کے دوران وہاں سے آنے والے پناہ گزیوں پر اپنے دروازے بند کر دیے تھے۔یورپی ملک بلغاریہ کے وزیر اعظم نے یوکرین کے پناہ گزینوں سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ ”یہ وہ پناہ گزین نہیں ہیں جن کی ہمیں عادت ہے۔ یہ یورپین ہیں۔ یہ لوگ ذہین اور پڑھے لکھے ہیں۔ یہ ان پناہ گزینوں کی طرح نہیں، جن کی شناخت کے بارے میں ہم نہیں جانتے، جن کا ماضی ہمیں معلوم نہیں، جو دہشتگرد بھی ہو سکتے ہیں”۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر: حاجی محمد لطیف کھوکھر