آشا آستھا شردھا : سب پامال ہوئی!

Allah

Allah

انسان کے فکر و قلب میں یہ عقیدہ ہر لمحہ جاگزیں ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کا وجود ہے بلکہ اس نے ابلیس اور اس کے ساتھیوں کے پھیلائے شر کے خلاف رسولوں کے سلسلے کو بھی جاری کیا۔ اللہ کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسول بنے اور رسولوں تک معزز ملائکہ نے اللہ کی تعلیمات پہنچانے کی اہم ذمہ داری انجام دی۔ آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جس معزز فرشتہ نے اللہ کی تعلیمات پہنچائیں ان کا نام حضرت جبریل ہے۔

جبریل نے اللہ کے اذن سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تک جو تعلیمات پہنچائیں یہ وہی ہدایات اور احکامات ہیں جسے عام لفظوں میں قرآن کہا گیا۔ اس طرح یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے اللہ ہے، اس نے اپنے کاموں کی انجام دہی کے لیے ملائکہ بنائے،رسولوں تک معزز ملائکہ اللہ کی ہدایات پہنچانے کا ذریعہ بنے، چند رسولوں پر اللہ کی تعلیمات کتاب کی شکل میں نازل ہوئیں اور ہدایت و رہنمائی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آخری کتاب جو آج دنیا میں موجود ہے اس کا نام قرآن ہے۔

لہذا قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اللہ، ملائکہ، کتاب، رسول، آخرت، تقدیر اورابدی زندگی پر ایمان لایا جانا ناگزیر ہے، کیونکہ قرآنی تعلیمات ٹھیک اُسی طرح آج بھی موجود ہیں جس طرح وہ اپنے نزول کے وقت سنی، پڑھی اور لکھی گئیں تھیں اور اس لیے بھی کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری رب العالمین نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے ۔لہذایہ وہ عقیدہ ہے جس کو سب سے مضبوط بنیادوں پر استحکام حاصل ہے۔

اس کے برخلاف رائج دیگر خدائی تعلیمات میںیہود و نصاریٰ کے عقائد ہیں جو درحقیقت خلط ملط ہو چکے ہیں، نہ انھیں آج کوئی مضبوط بنیاد ددرکار ہے اور نہ ہی استحکام۔ان دو عقائد کے برخلاف ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو قیاس پر مبنی خدائی تعلیمات کا دعویٰ کرتا ہے یہ سب سے کمزور عقیدہ رکھنے والوں کا گروہ ہے۔ دوسرے لفظو میں یہ وہ افراد ہیں جن کا درحقیقت کوئی عقیدہ ہی نہیں، وقت حالات واقعات اور ذاتی فوائد و نقصانات کے تحت یہ عقائد مسلسل اور لگاتار تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور آخری گروہ ان افراد پر مشتمل ہے جو متذکرہ تین گرہوں کے عقائد کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے۔

اس گروہ کا بھی تیسرے گروہ کی طرح کوئی وجود نہیں،لیکن دنیا کے مختلف مقامات پر وسائل پر قابض ہونے کے نتیجہ میں ان کا خیال بھی کسی حد تک ایک عقیدہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایسے لوگوں کو ملحد، ناستک،atheist یاfree-thinkerکے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

معزز و معتبر ہونے کا ڈھونگ: قیاسات پر مبنی خدائی تعلیمات کے دعویدار ایک جانب اپنے ناپاک عزائم کو برسرپیکار لانے کی منظم سعی و جہد کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ان کے پاکھنڈ کا شکار ہونے والے بنا غور و فکر،بلا تحقیق صحیح و غلط کی تمیزکیے بغیر جب شخصیات کو معزز و معتبر گردانتے ہیں تو کبھی دیر یاجلد جب حقیقت ان پر آشکارا ہوتی ہے، ایسی صورت میں ان بھکتوں اور عقیدت مندوں کو بڑی ٹھیس پہنچتی ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے افراد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو کر عام لوگوں پر و دیگر مذہبی رہنمائوں پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

Indian

Indian

یہاں تک کہ بعض اوقات وہ مذہب سے بھی نالاں ہو جاتے ہیں۔ پھر جس عقیدت اور اندھی تقلید میں وہ سرگرداں تھے مخصوص واقعہ یا واقعات کے نتیجہ میں مخصوص پیر یا سنت کے فکر و اعمال سے اعلان برات کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے ان کی آنکھ پر بندھی عقیدت کی اندھی پٹی کھل چکی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ حالیہ دنوں ہندوستان میں ایک معزز و معتبر سمجھنے جانے والے بابا، آسا رام اور ان کے بھکت کے ساتھ ہوا۔

معاملہ آبروریزی کی شکار 16 سالہ نابالغ لڑکی کا ہے جس کے والد، والدہ، بھائی اور خود وہ متاثرہ سنت آسارام باپو کو خدا مان کر اُن کی لگن میں پاگل تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اُسی متاثرہ لڑکی کے والد نے واقعہ سے قبل شاہجہاں پور میں آشرم کے لیے زمین خریدوائی۔

لاکھوں روپے باپو کی خدمت میں خرچ کیے لیکن اندھی عقیدت میں انہیں سنت کے اندر بیٹھا راکشس کبھی دکھائی نہیں دیا۔بیٹی کے ساتھ آبروریزی واقعہ گزرنے کے باوجود والد کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ “ان کا خدا” ایسا بھی کر سکتا ہے۔لیکن جب بیٹی کو اعتماد میں لے کر پوچھا تواس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی دھار پھوٹ پڑی۔ بولی باپو، باپو نہیں بہروپیا ہے، راکشس ہے۔

اس موقع پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ باپو کون ہیں؟ آسارام کا اصل نام آسو مل سروملائی ہے۔ پاکستان کے سندھ میں پیدا ہونے والے 72سالہ آسارام نے اپنے37سال کے سنت کیریر کی سلطنت میں دنیا بھر میں425آشرم اور50سے زیادہ گروکل،1400ویدانت کمیٹیاں، 17000 بال سنسکار مراکز اور ہیں۔ باپو کی جائداد کا مجموعی طور پر 8000 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔بچپن سے مذہبی رجحان رکھنے والے آسومل(آسارام) نے ماں کے کہنے پر لکشمی دیوی سے شادی بھی کی لیکن بعد میں 1968 میں گھر چھوڑ کر نینی تال میں سوامی لیلا شاہ باپو مہاراج کے آشرم میں چلے گئے۔

گرو لیلا شاہ جلد ہی ان کی حرکتوں کو پہنچان گئے اور آشرم آنے پر پابندی لگا دی، اس کے باوجود ایک بار آسارام آشرم آئے اور پھر اس گرو نے آشرم سے باہر نکال دیا۔اس کے بعد آسو مل گجرات کے احمد آباد آئے اور وہاں سابرمتی ندی کے کنارے موئیراگائوں میں1971میں پہلا آشرم کھولا اور پروچن دینے شروع کیا۔1959میں گجرات کے بیجاپور میں آسارام پر ایک شخص کے قتل کا الزام بھی لگا۔ بیجا پور کے سابق گارڈرجک بھائی کا کہنا ہے کہ 1959میں آسو مل شراب کا کاروبار کرتے تھے اور ایک دن زیادہ شراب پینے کی وجہ سے پرشورام نام کے ایک شخص کے ساتھ مل کر ایک دیگر شخص کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔2000ء میں گجرات کے ضلع نوساری کے بھیروی گائوں میں آشرم کی زمین ہڑپ لینے کا الزام لگا اور اس کے اگلے ہی سال2001 میں مدھیہ پردیش کے رتلام میں آشرم کے لیے دی گئی ساتھ ہی تقریباً 700 ایکڑ زمین بھی غصب کرنے کا الزام ہے۔ 2008 میں گجرات آشرم میں دو طلباء کے قتل کے الزام نے کافی طول پکڑا۔نیز آسارام کے خلاف صرف احمد آباد میں ہی 16 مقدمے درج ہیں۔

آسارام کے پرانے ساتھی امرت نے بھی الزام لگایا ہے کہ آسا رام کئی لڑکیوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کر چکا ہے اور ایک لڑکی کا تو قتل بھی ہو چکا ہے۔ آسارام کے قریبی راجو چانڈک نے بھی کہا ہے کہ اُس نے آسارام کو راجستھان میں ایک خاتون کے ساستھ جنسی تعلق قائم کرتے دیکھ لیا تھا جس کی وجہ سے اسے آسارام سے نفرت ہوگئی۔ حالیہ معاملہ میں بھی آسارام کے سیوادار شوا نے ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران پولیس کو بتایا ہے کہ وہ کئی عورتوں سے اکیلے ملتے تھے۔ دوسری طرف آسارام کو 14ستمبر تک جیل ہو چکی ہے لیکن قانونی چارہ جوئی جاری ہے۔ اس بیچ جودھپور پولیس کو آسارام کی گرفتاری پر دھمکیاں بھی ملیں نیز ڈی سی پی اجے لانبا کو دھمکی بھرے فیکس بھیجے گئے۔ ساتھ ہی معاملہ دبانے کے لیے آسارام کے حامیوں نے رشوت کی بھی پیشکش کی ۔سرکاری وکیل آنند پروہت نے بدھ کی صبح آسارام کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آسارام کو ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے تو وہ معاملے کو متاثر کرسکتے ہیں۔وہیں آسارام کے حامیوں نے متاثرہ کے کنبے کے رشتے داروں پر دبائو بنانا شروع کر دیا ہے۔ لڑکی کے والد نے بتایا کہ دہلی میں ان کی سسرال میں بھی آسارام کے کچھ لوگ پہنچ گئے اور انہوں نے ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ لڑکی کے والد کو سمجھائیں کہ وہ سی بی آئی جانچ کی رٹ نہ لگائیں۔ منھ بند نہیں کیا تو سات پشتوں کو بھگتنا پڑے گا۔ متاثرہ کے والد نے کہا کہ ان کے سبھی رشتے دار بہت ڈرے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی جان کی فکر ستا رہی ہے۔ متاثرہ کے والد نے یہ بھی بتایا کہ آسارام کی جانب سے انہیں پیسوں کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

Asaram

Asaram

یہ وہی آسا رام ہیں جن کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 376، 342، 506 اور 509، پریونشن آف چلڈرین فرام سیکسول آفینسز ایکٹ (پی او سی ایس او) کے دفعہ 8 اور جوینائل جسٹس ایکٹ کے دفعہ 23 اور 26 کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ آسام رام باپو کو سمن جاری کرنے کے علاوہ مدھیہ پردیش کے چنڈی واڑہ گروکل کے منیجر، ہوٹل وارڈن اور آشرم کے خاص نگراں کوبھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں، جو 15 اگست کو جودھپور کے منائی آشرم میں موجود تھے جب یہ مبینہ جنسی استحصال کا معاملہ پیش آیا تھا۔آج پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اس موضوع پر بہت کھل کر بات کر رہا ہے۔نیز اُس کی کوشش ہے کہ ایسے ڈھونگی سنتوں اور بابائوں سے عوام ہوشیار رہیں۔معاملہ یہ ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے نہ صرف اپنی بلکہ دیگر قیاس پر مبنی مذہبی گروئوں سے وابستہ آشا،آستھا اور شردھا سب کو پامال کر دیا ہے! اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں جب کہ عوام بری طرح مذہب اور مذہبی لوگوں کے بارے میں الجھن میں مبتلا اور کنفیوژ ہے، کون انکا پرسان حال ہوگا؟ کیا متاثرہ افراد اور ان کی تبدیلی ٔ فکر سے وابستہ افراد الحاد کا شکار ہوں گے؟ یا کوئی ہے جو ان کی دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ بنے گا۔

درحقیقت معزز و معتبر کون ہے؟ کہا کہ:” عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے”(النسائ:١٣٩)۔”عزت” کا مفہوم عربی زبان میں اردو کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے۔ اردو میں عزّت محض احترام اور قدر و منزلت کے معنی میں آتا ہے مگر عربی میں عزت کا مفہوم ہے کہ کسی شخص کو ایسی بلند اور محفوظ حیثیت حاصل ہو جائے کہ کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ دوسرے الفاظ میں لفظ عزت”ناقابلِ ہتک حرمت”کے ہم معنی ہے۔اور اللہ کے بعد قابل قدر و عزت اس کے انبیا و رسل ہیں اور اس کے بعد وہ لوگ جو قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے والے ہیں۔ کیونکہ قرآن ہی وہ سرچشمہ ٔ علم ہے جو درحقیقت قابل اعتبارو لائق احترام ہے۔ فرمایا:”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے۔

وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہو گااور ان کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے”(الااحزاب:٤٢-٤٤)۔یہ ہیں وہ اعمال و انعامات جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر نہ اس زندگی میں اور نہ ہی ابدی زندگی میں قدر و منزلت مل سکتی ہے۔مزید فرمایا:”جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے”(فاطر:١٠)۔(21)۔ قرآنی تعلیمات کے پس منظر میں جن لوگوں کا مکر غارت ہو رہا ہے اس سے آج پورا معاشرہ واقف ہے۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ صالح عقیدے اور صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول و عمل میں مطابقت ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے بر خلاف وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے بڑی باتیں کرنے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔

کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر صالحہ عقیدہ بھی نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔

ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔ مزید ہوشیار کرتے ہوئے اور جہنم کو ہولنا کیوں کو یاد دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”زقّْوم کا درخت گناہ گار کا کھاجا ہوگا، تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔ (اور کہا جائے گا)پکڑو اسے اور رگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب۔ چکھ اس کا مزا ، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تْو۔ یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے”(الدخان:٤٢-٥٠)۔یہ وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے عبرت ناک اور معتبر کلمات ہیں جنہوں نے خوب کھول کر واضح کر دیا ہے کہ عزت کیا ہے اور ذلت کیا !حقیقی عزت کن لوگوں کو ملتی اور ملنے والی ہے اور کون ہیں جن کو قابل احترم سمجھنا چاہیے۔

ساتھ ہی دنیا میں ذلیل و خوار ہونے والے کون ہیں اور وہ کون ہیں جن کا پیچھا ابدی زندگی میں بھی ذلیل و خواری سے سوا اور کچھ نہیں۔ پس! متذکرہ واقعہ، حالات و پس منظر، متاثرہ افراد، مجرمین و ملزمین اور دیگر اہل نظر تمام لوگوں پریہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ درحقیقت آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے اور یہ ابدی کامیابی اور قدر و منزلت اُن لوگوں سے عقیدت کے نتیجہ میں نہیں ملنے والی جو درحقیقت برائی کا سرچشمہ ہیں۔ جبکہ نہ ہی ان تعلیمات کی کوئی حیثیت اور نہ ان ہی کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی ان افراد اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے کامیابی ملنے والی ہے جن کو گر چہ صحیح اور واضح تعلیمات دی گئیں تھیں لیکن انھوں نے اس کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہیں اٹھایا اور اسی لیے وہ اللہ کی نظر میں ذیل و خوار ہوئے۔ کامیابی، عزت اور نجات اگر ملے گی تو صرف اور صرف ان تعلیمات کے ذریعہ جو آج بھی بالکل ٹھیکِ، واضح اور اپنے اعتبار کے لحاظ سے سب سے مستحکم ہیں۔چونکہ یہ وہ تعلیمات و ہدایاتِ ربانی ہیں جن کے ٹھیک اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی
ہے۔ لہذا اس سے بہتر کوئی علم نہیں کہ جس پر یقین کامل ہو اور جس پر عمل پیرا ہوا جائے۔

Asif Iqbal

Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com