عورت ہونا جرم ہے؟

Women

Women

میں آج یہ سوال اس لیے اُٹھا رہا ہوں کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ دور میں عورت کو انسان سمجھا جا رہا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ہر طرف مردوں کی اجارداری قائم ہے۔ عوت تو بس ایک جسم بن کر رہ گئی ہے۔ عورت کی اس حالت کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں عورت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن مرد کایہ سوچنا کہ وہ عورت کو اپنے پاس سے کچھ دے رہا ہے انتہائی غلط ہے۔ وہ مرد جو پیدا ہوتے ہی عورت کے سامنے رونے لگتا ہے وہ مرد عورت کو کیا حقوق دے گا۔ جسے اس دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ مرد جسے اپنی نسل آگے چلانے کے لیے کبھی کبھی ایک سے بھی زیادہ عورتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرد کیوں یہ بات بھول جاتا ہے کہ جس نے اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں پالا۔ اور پھر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے جنم دیا۔ وہ عورت ہی ہے جو اپنی تمام تر خواہشات کو زندہ دفن کرکے رات دن مرد کی بے لوث خدمت کرتی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اس کی فطرت میں شرم و حیاء پیدا فرما کر عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے رشتے میں مرد کو ایسا تحفہ دیا ہے جس کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی مرد کا وجود عورت کے وجود کے بغیر باقی رہ سکتا ہے۔ تو افسوس کہ دور قدیم سے دور جدید تک عورت مظلوم ہی رہی۔ یہ بات سچ ہے کہ عورت میں بھی کچھ خامیاں ہیں۔ کیونکہ عورت میری ماں بھی ہے میری بہن بھی ہے اور بیوی بھی ہے اس لیے عورت کی کردار کشی نہیں کروں گا اور نہ ہی عورت کی خامیاں گنوائوں گا۔ میں عورت کی ان خامیوں کا ذمہ دار بھی مرد کو ہی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے اس لیے معاشرے میں پیدا ہونے والے اچھے یا برے کرداروں کی ذمہ داری بھی مرد پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لیکن دور جدید میں سب سے بڑا لمحہ فکریہ، یہ ہے کہ اگر کبھی کو ئی عورت اچھا اور قابل فخر کارنامہ سر انجام دیتی ہے تو اس کا سہرا بھی مرد کے سر ہوتا ہے کیونکہ مرد نے اسے اس کا موقعہ فراہم کیا ہوتا ہے۔

Allha

Allha

جبکہ ہر ناکامی اور برائی کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔ جو معاشرے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق ہو جاتے وہ بے گناہوں کو ایسی سزائیں دیتے ہیں جو اگر گناہ گاروں کو بھی دی جائیں زیادہ ہوں۔ وہ معصوم کیا جانے کہ اسے کتنی بڑی سزا ملنے والی ہے جسے ابھی اس دنیا میں آنا ہے۔ اور ابھی تو اس معصوم نے اپنی ماں کے وجود سے باہر کی دنیامیں چند سانسیں ہی لی تھیں۔ وہ بالکل تندرست اور توانا تھی۔ ابھی اسے مذہب، ذات پات، رنگ و نسل، خاندانوں اور فرقوں کی تقسیم کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ابھی تو اس نے ہنسنا بھی نہیں سیکھا تھا ابھی رونا آتا تھا اور نہ ہی اسے اپنی جنس کا کچھ علم تھا لیکن اس کی قسمت میں زندہ دفن ہونا لکھا تھا کیونکہ وہ جس دور میں پیدا ہوئی تھی وہ دور جہالت تھاجب بیٹی کو ایک گالی سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہ تھا ایسے میں اگر اسے علم ہوتا کہ اس کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جائے گا۔

علم کے ساتھ اگر اسے اختیار بھی ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی جنس منتخب کرلے تو شاید وہ کبھی بھی عورت ہونا پسند نہ کرتی اسے کیا پتہ تھا کہ وہ کس زمانے میں پیدا ہو رہی ہے۔ جی قارئین یہ حالات تھے اسلام سے پہلے کے جب عربوں میں بیٹی کو زندہ ہی دفن کر دیا جاتا تھا لیکن پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں عورت کو وہ مقام دیا جس کی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقدار تھی۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ دنیا میں پہلی مرتبہ بیٹی کو وراثت کا حقدار بنا کر اسے معاشرے میں باعزت فرد ہونے کا مقام عطا کیا۔

مگر یاد رہے یہ حق صرف اسلام نے دیا اور انسانوں پر اللہ کا احسان ہے۔ عور ت مغرب میں پیدا ہو یا مشرق میں کسی بھی معاشرے نے سوائے اسلام کے عورت کو انسان ہونے کا درجہ نہیں دیا۔ عورت کے وجود سے کائنات کا حسن باقی ہے۔ عورت ماں بھی ہے۔ عورت بہن بھی ہے۔ عورت بیوی بھی ہے اور عورت بیٹی بھی ہے خواتین کے موضع پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ قلم اٹھاتے ہوئے محسوس ہوتا ہے شاید اب کچھ باقی نہیں رہا۔ لیکن آج اس موضوع پر بات کرنے، لکھنے، پڑھنے اور غور و فکر کے ساتھ معاشرے کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے عورت کو اُس کا اصل مقام دینا ہو گا۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیازعلی شاکر
imtiazali470@gmail.com,