حوا کی بیٹی

Woman

Woman

تحریر: روبینہ شاہین

”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“

علامہ اقبال نے عورت کی خوبصورتی کو کائنات کی خوبصورتی سے تشبیہ دی ہے۔ کائنات کا سارا حسن عورت کے وجود سے ہی جڑا ہوا ہے لیکن کیا یہ عورت معاشرے میں وہ مقام رکھتی ہے جس کی وہ حق دار ہے یا صرف اس سے جنسی تقاضے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی سڑتی لاشیں جب بدبو چھوڑتی ہیں تو اس لمحے کیا بچیوں کی لاشوں کو دیکھ کر دل میں افسوس اور دکھ نہیں ہو تا۔ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی بچیاں کیا معاشرے کو کوئی آئینہ نہیں دکھاتی۔ کیا ہمارا آج کا معاشرہ بالکل بے حس اور جاہل بن چکا ہے۔ کیا عورت صرف جنسی خواہشات پوری کرنے کیلئے ہی ضروری ہے یا اس کا معاشرے میں کوئی مقام بھی ہے۔

قابل غور ہے یہ سوال اور قابل غور ہے یہ وقت جب یہ جرم عام ہوتا جا رہا ہے اور اس سوال کا کوئی جواب دینے والا نہیں روزانہ کہیں نہ کہیں یہ حالات اور واقعات پیش آتے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں کسی جرم کی سزا نہیں۔ صرف وقتی طور پر ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں یہ بحث کرتے ہیں اور دوسرے دن بھول جاتے ہیں۔ ایک عورت کا ماں بیٹی، بہن یا بیوی کی حیثیت سے اس معاشرے میں کیا مقام ہونا چاہیے، کبھی یہ سوچا بھی ہے ہم نے یا صرف ”عورتوں کا عالمی دن“ منا کر اور لانگ مارچ کرکے ہی عورتوں کو تسلی دے دی جاتی ہے۔

اسلام سے پہلے کا دور تھا۔ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر ندامت محسوس کی جاتی تھی۔ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیئے، زندہ رہنے کا حق دیا، عزت کے ساتھ احترام کے ساتھ اور پھر وقت نے اس اصول کو واضح بھی کیا اور ثابت بھی کیا۔ قرآن پاک میں عورتوں کے حقوق پر بہت سی آیات نازل ہوئیں۔سورة المائدہ، سورة النساءعورتوں کے حقوق کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنت کی عورتوں کا سردار مقرر کیا گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو عورتوں میں ایک نمایاں مقام بخشا گیا۔ بیوہ مطلقہ عورتوں کے حقوق مقرر کیے گئے۔ وراثت میں عورت کو اس کے حقوق کی نشاندہی کی گئی۔ اسلام نے عورت کی حیثیت ہی بدل دی لیکن کیا آج ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ سب دیا جاتا ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس نے دنیا میں دو بیٹیوں کی اچھے طریقے سے پرورش کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ جنت میں اس طرح ہو گا جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں۔“

کیا ہم آج بھی بیٹی کی پیدائش پر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک رحمتوں کا حساب نہیں لے گا مگر نعمتوں یعنی ”بیٹے“ کے بارے میں حساب لیا جائے گا۔

میانوالی میں ہونے والے واقعے نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ سات دن کی بچی کو اس کے سگے باپ نے پانچ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ کیا آج بھی باپ اتنے سنگدل ہوتے ہیں۔ میانوالی میں محلہ نور پورہ میں ہونے والے اس واقعے نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ باپ اس تنگ سوچ سے تعلق رکھتا تھا جس میں بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیے ذلت تصور کرتا تھا۔ یہ شخص چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو لیکن جب اس کی بیوی نے ایک بیٹی کو پیدا کیا وہ بہت خوبصورت بچی جس کا نام ”جنت“ رکھا گیا۔ اس کے باپ نے سات دن اس بچی کو برداشت کیا۔ ساتویں دن پستول لہراتا ہوا رات کے 9بجے گھر میں داخل ہوا اور پوچھتا ہے کہ کہاں ہے وہ بچی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ یہ حرکت کرے گا۔ بچی ماں کی گود میں سو رہی تھی۔ اس نے بچی کو ماں کی گود سے چھین لیا اور پانچ گولیاں بچی کو ماریں۔ بچی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے وہیں دم توڑ گئی۔ ماں بیہوش ہو گئی یہ دیکھ کر۔

ایسا واقعہ تاریخ میں نہیں دیکھا گیا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو ہی قتل کرے گا۔ غیر آدمی یا چچا، ماموں تو اس قسم کی حرکت کر سکتے ہیں مگر سگا باپ صرف کلنک کی وجہ سے مارے گا۔ یہ تو صریحاً زمانہ جاہلیت ہی ہو گیا۔ آج کے زمانے میں جب عورت زندگی کے ہر میدان میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس وقت بھی کوئی باپ بیٹی کو اپنے لیے احساس شرمندگی سمجھتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اس خاندان میں اور بھی بہت سے واقعات ہیں جو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیے احساس شرمندگی سمجھتے ہیں۔کیا ایسے واقعات ہمارے معاشرے کیلئے خدا کے قہر کو آواز نہیں دیتے۔ اس بچی کا کیا قصور جس کو خدا نے اس دنیا میں بھیجا لیکن سگے باپ نے اسے قبول نہیں کیا اور واپس خالق کائنات کے پاس بھیج دیا۔

Woman

Woman

کیا مردوں کو پیدا کرنے والی عورت نہیں؟ کیا ماں ایک عورت نہیں؟ ساری دنیا کی تخلیق عورت کے وجود سے ہی ہوتی ہے تو پھر عورت کی پیدائش قابل شرم کیوں؟ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کیجیے۔ عورت کو صرف تقریروں اور سوشل میڈیا میں ہی نہیں بلکہ زندگی میں بھی صحیح مقام دیجیے۔ بیٹی قابل شرم نہیں بلکہ قابل فخر بھی ہوتی ہے۔ اس کی تعلیم و تربیت پر غور کیجیے اور اس کا تحفظ کریں۔ ”ایک مرد تو صرف ایک خاندان سنبھالتا ہے مگر ایک عورت سات نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔“اس لیے عورت کو معاشرے میں صحیح مقام دلوایئے۔

تحریر: روبینہ شاہین