ہم کس طرف جا ر ہے ہیں؟

 Imran Khan

Imran Khan

تحریر: مزمل حسین انقلابی

حیران ہوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس میں ہر دوسرے کے منہ سے جمہوریت کا راگ سننے کو ملتا ہے۔ اور ہر پہلا بیچ میں کچھ عرصے کے بعد ٹھیک اس طرح ہی آتا ہے جیسے ٹی وی پر فلم دیکھتے وقت بیچ بیچ میں کمرشل آ جایا کرتی ہے ۔ ن لیگ کو جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں “ووٹ کو عزت دو ” کا نعرہ لگائے ہوئے لیکن بھول گئے ۔ اقتدار کی ہوس میں سیاستدان اکثر اپنی کہی باتیں بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ن لیگ کی کیا کررہی ہے ن لیگ ووٹ کی عزت کا تماشا لگا کر منتخب وزیر اعظم کو گرانے کی سعی میں ہے ٹھیک اسی طرح جیسے پچھلے دورانیے میں عمران خان نواز شریف کو گرانے کی سعی میں تھا۔کل نواز شریف اس سٹیج پر تھا آج عمران خان ہے اورکل نیا کوئی منتخب وزیر اعظم اسی سٹیج پر ہوگا۔

سیاستدانوں کو یہ کھیل پچھلے ستر سالوں سے کھلتے دیکھا جاسکتاہے لیکن آج تک کسی سیاستدان نے پورے پانچ سال حکومت کر کے اس کھیل کو انجام تک نہیںپہنچایا کوئی بھی اس کے اہل ابھی تک دیکھنے میںنہیںآیا وہ شخص آئین کا دیا ہوا مقرر وقت بھی آج تک نہیں لے سکے وہ ملک و قوم کی خاک خدمت کرئے گا۔ پاکستان میںوزیر اعظم کی حیثیت اتنی سی رہ گئی ہے ۔وزیر اعظم جو ملک کا سربراہ ہوتاہے ، سردار ہوتا ہے وہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ ریاست کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے بڑی آسانی سے لے سکے۔ ہمارے ملک میںوزیر اعظم کی کرسی سے نہ صرف عشق کیا جاتا ہے بلکہ کسی دوسرے کو رقیب سمجھ کر اس کرسی پر تسلی سے بیٹھنے بھی نہیںدیا جاتا۔

بھئی کرپشن کے لیے چار سال بہت ہوتے ہیںاگر کسی نے ملک کو سنوارنا ہے تو اسے کم از کم پانچ سال ضرور ملنے چاہیے ۔ میرے خیال میں تو وزیر اعظم کا دورانیہ کم از کم دس سال ہونا چاہیے اور اسے کسی بھی اوچھے ہتکنڈے مثلاتحریک عدم اعتماد یا پھر مارشل لا کے ذریعے ڈسٹرب نہیں کرناچاہیے ۔ستر سالوںسے ہمارے سیاستدان کرسی کرسی کھیل رہے ہیں کسی کو کوئی فکر نہیںکہ عوام کس حال میںجی رہی ہے جی بھی رہی ہے یا مر چکی ہے کوئی خبر نہیںہے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جس میںٹیکنالوجی کی بھرپور ترقی کے باوجود آج تک صحیح آبادی کی تعداد معلوم نہیںکی جاسکی۔ ریاستی معاملات کو بہتر طریقے سے سرانجام دینے کی طرف ہم نے ایک قدم بھی نہیںبڑھایا۔ غریب اپنی نگاہیں وزیر اعظم کی کرسی پرپچھلے ستر سالوںسے ٹکائے غریب تر ہوتا گیا۔

حجام میں بال بنانے والا بھی وزیر اعظم کے آنے اور جانے کی خوش گپیوں میں مصروف ملتا ہے ۔ وزیراعظم، وزیر اعظم ریاست کا سردار اور گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں بس ایک انٹر ٹینمنٹ رہ گیا ہے۔ اس تباہی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہماری ریاست سیاسی طور پر مستحکم نہیںہے اور اس وقت تک مستحکم ہو بھی نہیںسکتی جب تک کوئی عوامی لیڈر ریاست کی باگ دوڑ نہ سنبھالے اور تسلی سے سنبھالے ۔کرپشن زدہ بدنما چہرے کے ہاتھوں کبھی بھی ریاست میں بہتری نہیں آسکتی ۔ ریاست کو ایماندار ، باہمت، باکرداراور ایک بہادر ہی ترقی کی راہوں پر ڈال سکتا ہے۔

موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان ماشااللہ سے باہمت ہیاللہ تعالی عمران خان کو روایتی چار سالہ سیاسی موت سے محفوظ رکھے۔ یہ دعا صرف عمران خان کے لیے نہیں آگے آنے والے نئے لوگوں کے لیے ہے یہ دعا شہباز شریف کے لیے بھی ہوسکتی ہے مریم کے لیے بھی اور بلاول کے لیے بھی ۔ یہ دعا اصل میںپاکستان کے لیے ہے یہ دعا اصل میںہماری ریاست کے لیے ہے تاکہ ہماری ریاست مستحکم ہو سکے۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہوںکہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے پہلی ضرورت ہر حال میںایگزیٹو کو اپنی مقرر ہ مدت پوری کرنی چاہیے ۔اور اگر موجودہ ایگزیٹو کی بات کریںتو ہر لحاظ سے عمران خان کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنی چاہیے ۔ یہ کہیں درجے زیادہ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتمار کا اختیار پارلیمنٹ میںبیٹھے ہوئوں کی بجائے عوام کو ریفرینڈم کے ذریعے دیا جائے۔

پارلیمنٹ مکو ریفرینڈم کرانے تک فیصلے کا اختیار ہو۔اور ریاست ہارس ٹریڈنگ جیسی لت سے پاک وہ سکے۔ جب بھی حکومت اپنا دورانیہ شروع کرتی ہے تو تقریبا ساٹھ فیصد دورانیہ معاملات کو سمجھنے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور پچھلی حکومتوں کوکوسنے میںگزارتی ہے ۔ جب معاملات سمجھ میںآجائیںاور ٹھیک سمت جانے لگیںتو پچھلی حکومتیں آڑے آ جاتی ہے تو کبھی فوج لہر میںآجاتی ہے تو کبھی عدالتیں بیدار ہوجاتی ہیںمعاملات ٹھیک نہیںہوپاتے جب بھی کوئی معاملات کو سمجھنے کے قریب پہنچتا ہے دوسرا آگے آکر نئے سرے سے معاملات کو سمجھنے میںلگ جاتا ہے۔ اگر ہم کہیںکہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ تو بقول ڈاکٹر اسد اللہ ہم کھائی میں جارہے ہیں۔

نواز شریف کا نعرہ “ووٹ کو عزت دو” ہر سیاستدان کا نعرہ ہونا چاہیے یہ نعرہ کسی اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کے خلاف ہر گز نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ووٹ کا تعلق اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے کسی صورت بنتا ہے۔ یہ تم ہی ہو جوووٹ ووٹ کا کھیل کھیلتے ہو اور جیتتے ہو یا ہارتے ۔ عملی طور پر ووٹ کی عزت اپنے گھر پارلیمنٹ سے شروع کرو اور پانچ سال کے لیے عمران خان کو دیے ہوئے ووٹ کی عزت کرو اور اپنے گھر بیٹھواور ایک شریف انسان کو ملک و قوم اور ریاست کے لیے وہ کرنے دو جو تمہاری دو دو، تین تین اور چار چارنسلوں نے بھی نہیںکرنا۔ فضل الرحمن کے متعلق کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کہنا نہیںچاہیے کیوں کہ اقتدار سے پہلا پہلا ہجر ہے اور تکلیف دے ہے ہم مولانا کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں۔غلام محمد قاصر کی روح سے معذرت کے ساتھ ان کا شعر ترمیم کے ساتھ فضل الرحمن کے لیے۔کروں گا کیا جوسیاست میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتانوٹ:چوہدریوںاور سندھ والوں کو نصیحتیں اگلی تاریخ پر دی جائیں گی۔بشکریہ سی سی پی۔

Muzzamal Hussain

Muzzamal Hussain

تحریر: مزمل حسین انقلابی