برکت

Barkat

Barkat

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ہزاروں سال پہلے دوپہر کے وقت سورج کی تیز روشنی میں ہاتھ میں روشن چراغ لیے تاریخ انسانی کا عظیم مجذوب فلسفی درویش دیو جانس کلبی کچھ تلاش کر تا نظر آتا ہے تو اہل شہر حیران نظروں سے اُسے دیکھ کر پوچھتے ہیں اے درویش وقت تم دن کی روشنی میں ہاتھوں میں چراغ لیے کیا ڈھونڈ رہے ہو تو خدا مست نابینا مجذوب درویش بولا میں کسی انسان کو ڈھونڈ رہا ہو ں مجذوب کاحیران کن سوال سن کر لوگ اور بھی حیران ہو گئے اور بولے کیا ہم سب انسان نہیں ہیں یہ جو بازار انسانوں سے بھرا ہوا ہے یہ کو ن لوگ ہیں تو درویش بولا یہ تو حرص لالچ خواہشات کے غلام ہیں میں تو اُس انسان کو ڈھونڈ رہا ہوں جس میں پیدائشی فطری صلاحیتیں موجود ہوں جو حقیقی معنوں میں انسان ہو یہ ہزاروں سال پہلے کی بات ہے جب ایک روشن ضمیر کامل مجذوب کو انسانوں کی بجائے مادی جانور نظر آئے تو اُس نے کامل انسان کی تلاش شروع کر دی قافلہ شب و روز چلتا رہا صدیوں پر صدیاں چڑھتی چلی گئیں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان اپنے اصل مقام سے جنسی ومادی غلام بنتا چلا گیا پھر جدید دور کی چکا چوند روشنیوں کا سیلاب اِس قدر آیا کہ بصیرت و آگہی فہم و فراست انسا نیت کی جگہ مادیت اور دوسروں کو روند کر خودکو مضبوط کر نے کے خیالات پروان چڑتے چلے گئے اور پھر موجودہ دور میں تو انسان بلکل ہی جنسی مادی جانور بننے کے ساتھ اقتدار طاقت شہرت کے حصول میں انسان سے درندے کا روپ دھار چکا ہے۔

ہر بندہ شکاری بن کر بیٹھا ہے جیسے ہی کوئی اُس کی زد میں آتا ہے وہ چھرا گھونپ کر دوسروں کو روند کراپنی خواہشات کی تکمیل اور دولت کے ذخائر میں اضافہ کر تا ہے آپ اپنی زندگی کے ماضی کے اوراق دیکھ لیں کتنے لوگ آپ کی زندگی میں آئے کتنے حقیقی معنوں میں خدا کے خلیفہ نائب اور کامل انسان تھے باقی تو موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھے ہیں شریف ایماندار وہی ہے جس کو موقع نہیں ملتا جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ فوری طور پر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ۔اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آج کا انسان اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ مذہبی حقوق و فرائض کو بھی پامال کر تا نظر آتا ہے آج کے انسان کے قول و فعل کا اگر آپ مشاہدہ کریں تو وہ جب بھی کوئی عمل کرتا ہے تو اِس میں اُس کی انا وجود کا احساس اور خواہشات کی تکمیل ہی نظرآتی ہیں آج کے انسان کی ترجیح اول اللہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے بلکہ یہ تو خواہشات کا غلام بن چکا ہے مادیت پرستی اور بے لگام خواہشات کی تکمیل کرتے آپ کو چاروں طرف مادی جانور ہی نظر آتے ہیں۔

مادیت پرستی کے اِس چڑھتے جادو میں صرف کو چہ تصوف راہ فقر عشق الٰہی یہ وہ کوچہ ہے جہاں پر آپ کو انسا ن خواہشوں کا سیر نہیں آتا بلکہ کو چہ تصوف کے میں آپ کو ایسے لوگ ملتے ہیں جو دوسروں کو روندنے کی بجائے انسانوں سے پیار کی خوشبو بانٹتے نظر آتے ہیں میں سیاہ کار بھی جب سے کوچہ تصوف کا طلب علم بناہوں تو ایسے مکمل کامل انسان کی تلاش میں رہتاہوں جو خواہشات کا غلام نہیں جو جنسی مادی جانور نہیں بلکہ نیکی اور اچھائی کا حقیقی علمبردار نظر آتا ہو جس کی صحبت میں کردار اور خلوص کی خوشبو محسوس ہو تی ہو ایسے باکمال ہمالیہ جیسے لوگ بہت کم ملتے ہیں ورنہ اگر آپ دانشوروں علما دین مفتیوں سخاوت کے دعوے داروں سیاستدانوں ، انسانیت کے نام نہاد مسیحائوں کو قریب سے دیکھیں تو ظاہر باطن میںکھلا تضاد اور گند نظر آتا ہے بڑے بڑے کردار کے دعوے داروں کی قربت صحبت میں جب موقع ملا تو اللہ باطنی کثافت کے طبقت کو سرشار کرنے کی بجائے بو جھل کر دیا بلکہ کھو دا پہاڑ نکلاچوہا والی بات سامنے آئی ۔لوگوں نے اپنے پر پرت در پرت بہت سارے خول چڑھا رکھے ہیں جب آپ ان پردوں کے نیچے اصل شخصیت تک پہنچتے ہیں تو ظاہری نام شہرت پانی کے بلبلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے بڑے بڑے گدی نشینوں سجادہ نشینوں عبادت گزاروں شب بیداروں کی شہرت سن کر جب ان سے واسطہ پڑا تو اندر کے شیطان نے اور بھی مایوس کر دیا جتنا بڑا نام اتنا ہی چھوٹا کردار نظر آیا اور اگر انسان کبھی نظر آیا بھی تو غریب سادہ معصوم چھوٹے لوگوں میں جو نام کے بڑے نہیں تھے لیکن کردار کے ہمالیہ پر براجمان نظر آئے جب بھی ایسے روشن کردار لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو روح خاص سرشاری سے ہمکنار ہو تی ہے۔

ایسے ہی ایک انسان کا یہاں تذکرہ کروں گا جو اہل دنیا کے لیے عام سا انسان لیکن اُس کے کردار کے سامنے کے ٹو جیسے نام نہاد انسان بونے نظر آئے چند ماہ پہلے میںاور میرا ایک دوست جی ٹی روڈ پر لاہور سے دور کسی دوسرے شہر کسی نیک انسان سے ملنے جا رہے تھے میرا دوست باہر سے آیا تھا اور وہ میری کمپنی اور میں اُس کی کمپنی سے لطف اندوز ہو نا چاہتا تھااُس نے مجھے ساتھ لے لیا اور ہم ماضی کی یادوں باتوں میں مگن رواں دواں تھے کہ اچانک کار نے دوڑنے سے انکار کر دیا بار بار چلانے پر چلتی بھی تو بہت آستگی سے پھر بند ہو جاتی میں تو مکمل گاڑیوں کے معاملے میں اناڑی دوست پرانا گاڑیوں سے آشنا تھا اُس نے بار بار گاڑی چلانے کی کو شش کی کئی بار اُتر کہ بونٹ اٹھا کر گاڑی کے مختلف پرزوں کو دیکھنے اور چھیڑ خانی کی بھی کوشش کی لیکن اُس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی ہم لاہور شہر سے بہت دور آگئے تھے جب گاڑی نے ہر قسم کے تعاون سے انکار کر دیا تو میں نے موٹر وے پولیس میں اپنے ایک دوست کو کال کر کے مدد مانگی تو اُس نے کہاوہ یہاں سے بہت دور ہے ساتھ ہی کہاآپ اپنا فون بند کریں میں کسی سے بات کر تا ہوں تھوڑی دیر میں اُس کا فون آیا کہ پندرہ بیس منٹ میں ایک مکینک آپ کے پاس آرہا ہے قسمت سے وہ مل گیا اُس کے ہاتھ میں بہت برکت ہے خراب سے خراب گاڑی کو بھی جب وہ ہاتھ لگاتا ہے تو گاڑی حرکت میں آجاتی ہے ساتھ ہی وہ بزرگوں کو بہت پسند کر تا ہے جب میں نے آپ کی درویشی کی متعلق بتایا تو وہ فوری طور پر آپ کی طرف چل پڑا تھوڑی دیر میں واقعی مکینک صاحب ہمارے پاس آگئے گرم جوشی سے ملنے کے بعد کار کے انجن کے ساتھ تھوڑی سی چھیڑ خانی کی اور بولا جناب کار سٹارٹ کریں میرا دوست کار میں بیٹھا تو کار فوری سٹارٹ ہو گئی اب مکینک بولا جناب آپ کاکام تو ہو گیا قریب ہی میری دوکان ہے آپ وہاں چلیں آپ کو گرما گرم چائے پلاتا ہوں اِس بہانے میری دوکان میں آپ کے جانے سے برکت بھی پڑ جائے گی۔

اب اُس کی دوکان پر آگئے تو میں نے پوچھا جناب یہ درویشوں سے محبت کب سے اور کیسے تو عقیدت مٹھاس بھرے لہجے میں بولا جناب میں اپنے استاد کی ورکشاپ پر کام کر تا تھا دس سال پہلے وہ اچانک وفات پاگیا تو میں ایک قریبی بزرگ سے دعا لینے گیا تو اُس بزرگ نے کہااگر تم میری نصیحت پر عمل کرو گے تو جس گاڑی پر ہاتھ رکھو گے وہ ٹھیک ہو جائے گی نصیحت یہ کہ آدھی کمائی اپنے استاد کی فیملی کو دیتے رہنا تاکہ استاد کے گھر کا چولہا چلتا رہے میں نے بزرگ سے وعدہ کیا وہ دن اور آج کا دن دس سال کا عرصہ گزر گیا لوگ سیکڑوں میل سے میرے پا س آتے ہیں میں ہاتھ رکھتا ہوں تُکا لگاتا ہوں انجن سٹارٹ ہو جاتاہے میں نے آدھی کمائی استاد کے خاندان کے نام وقف کی ہوئی ہے یہی نیکی میرے ہاتھ میں برکت بن گئی ہے میں جاہل ہوں پڑھا لکھانہیں یہ صرف بزرگ کی دعا اور استاد کے خاندان کی دعا اور برکت ہے جو رب جی مسلسل مجھے عزت دئیے جا رہے ہیں جس مردہ گاڑی پر ہاتھ رکھتا ہو اُس میں جان اور برکت پڑ جاتی ہے میں آج پھر برج خلیفہ سے بھی بلند شخص سے ملا تھا جس کے کردار خدا خوفی اور درویش کی نصیحت نے اُس کے ہاتھ میںاپنی برکت ڈال دی کہ وہ خراب سے خراب گاڑی پر ہاتھ رکھتا ہے اور خدا اُس میں برکت ڈال دیتا ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org