قدرت نے جو لکھے ہیں کتبے پڑھا کرو

Life

Life

ایک مغربی مفکر کہتے ہیںکہ میری زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی لکھا ہوا لفظ میری نظروں کے سامنے گزرا ہو اور میں نے اسے پڑھا نہ ہو” ہمارے ہاں شرح خواندگی ویسے ہی المناک حد تک کم ہے جو لوگ پڑھے لکھے ہیں انہوں نے خود کو صرف نصابی کتب تک محدود کیئے رکھا ہے۔ دراصل کتاب مجموعی طور پر ہماری زندگی میں داخل ہی نہیں ہو سکی اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ معاشی مسئلہ بھی ایک سبب ہو سکتا ہے لیکن اصل چیز علم سے فرار کا وہ رویہ ہے جو ہمارے ہاں ہر سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ معلومات میں اضافے کے بے شمار طریقے ہیں۔ مطالعہ کی کئی صورتیںہیں۔ صرف کتابوں کا ہی مطالعہ نہیں بلکہ بقول شاعر:-
قدرت نے جو لکھے ہیں کتبے پڑھا کرو۔
مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو۔

بنیادی بات ذوق کی ہے آدمی اگر پڑھنا چاہے کتاب کی خوشبو سے دل و دماغ کو معطر کرنا چاہے تو کتاب تک رسائی میں حائل رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہو سکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں لائبریریوںکے دروازے بھی دوپہر کے وقت بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آپ کسی بھی بڑے شہر کی لائبریری میں چلے جائیں۔ تو آپ کو محسوس ہو گا جیسے لائبریری کی عمارت میں اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

بہت سارے ایسے طریقے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر مطالعہ کی عادت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کتاب کی خوشبو کو پھیلایا جا سکتا ہے۔ چرا غ جلائے جا سکتے ہیں۔ شادی شدہ کو موقع پر یا سالگرہ کی تقریبات میں مہنگے پرفیوم گفٹ کیئے جا تے ہیں۔ جنکی خوشبو نہ صرف عارضی ہوتی ہے بلکہ اس کا دائر ہ اثر محض ظاہر تک محدود رہتا ہے۔ لیکن اگر ایسے مواقع پر سستی مگر اچھی کتا ب کا تحفہ دیا جائے تو اپنے احباب کے لیئے ایک دائمی خوشبو کا اہتمام کیا جا سکتا ہے وہ خوشبو جس سے انسان کا باطن مہک سکتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ڈرائنگ رومز میں قیمتی ڈیکوریشن پیس آراستہ کیئے جاتے ہیں۔

حالانکہ وہاں ایک بک شلف بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اور وہاں کوئی ناول، تحقیق کی کوئی کتاب، سائنس کی کوئی کتاب، اسلامی کتابیں یا انسائیکلو پیڈیا سجایا جا سکتا ہے۔ اس سے ایک تو آنے والے پر میزبان کے بازوق ہو نے کا تاثر مضبوط ہو گا اور دوسری جانب مہمان کے دل میں بھی کتاب دوستی کی خواہش جنم لے گی۔ یوں خوشبو کا یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔

جب تک ہمارے ہاں اس طرح ی خوبصورت رویات پروان نہیں چڑھیں گی اصلاح و احوال کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو گی۔ کتاب اپنے قاری کے لیئے اداس رہے گی۔ روتی رہے گی۔ علم کے سرچشمے ملت اسلامیہ کے علماء کے ذہنوں سے پھوٹے مگر اس سے فائدہ اغیار نے اٹھایا بقول شاعر مشرق:-
وہ یعنی علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ۔

Books

Books

یہ المناک صورتحال کیونکر پیدا ہوتی ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بدولت کتاب سے ہمارا رشتہ کٹ کر رہ گیا ہے۔ ان عوامل کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم عام نہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ نے کتاب کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ تیسری اور شائد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کتاب کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے گھروں میں کتاب کے لیئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

حالانکہ کتاب سے پورا گھر منقلب ہو جاتا ہے۔ کتاب کو اگر گھروں میں داخلہ مل جائے تو گھروں کے بچے ان سے مانوس ہونے لگیں یوں کتاب کلچر وجود میں آجائے گا۔ کتاب سے علم ہی میں اضافہ نہیں ہوتا انسانکا بان بھی صاف ، معتر اور لطیف ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھروں میں اس کلچر کے بیج بوئے جائیں اور پھر نگہداشت بھی کی جائے کتاب بینی کے لیئے پبلسٹی بھی درکار ہے اور یہ کام نجی سطح کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی ہوتا ہے۔

کتاب اداس ہے کہ قاری بے وفا ہو گیا ہے مگر یہ کتاب کی غلط فہمی ہے دراصل قاری رہین ستم ہائے روزگار ہو گیا ہے۔ وہ کتاب کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ مگر روٹی کی فکر میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ حکومت نے مہنگائی کے جن کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ روٹی انسان کی پہلی ضرورت ہے کتاب کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔ پڑھنے کے لیئے فراغت بھی میسر ہو اور گوشہ چمن بھی ، تو کتاب خریدنے کے لیے قاری کی جیب میں باقی کچھ نہیں رہتا۔

درسی کتب بھی مجبوری سے خریدی جاتی ہیں کہ انکا تعلق بھی روزی اور روٹی سے ہے۔ اوپر سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، انٹرنیٹ اور سی ڈی کلچر نے ایسا شب خون مارا ہے کہ کتاب ابھی تک اس ناگہانی اور روز افزروں یلغار سے سنبھل نہیںپائی ، جو قاری دولتمند ہے وہ کمپیوٹر کی طرف مائل ہے۔ ابھی اسی نئی اور ہر روز بدلتی ٹیکنالوجی کا اس ک یسر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ابھی وہ اس کے جس حسن کا اسیر ہے اس سے منسلک مسائل کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جا رہا مگر یہ سحر زیادہ دیر نہیں رہے گی کمپیوٹر کی پے درپے بے وفائیاں آخر قاری کو کتاب کی جانب کھنچ لائیں گی۔ جو سرہانے رکھی جا سکتی ہے۔

تکیے پر سر رکھ کر پڑھی جا سکتی ہیں۔ سفر و حقر میں ساتھدیتی ہیں۔ لوڈشیڈنگ میںبھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ سن کی روشنی میں تو بلکل نہیں اور رات کو بھی دئیے کی روشنی میں قاری کے کام آسکتی ہے۔ امتحان کے دنوں میں کتاب کی وفاداری کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ مجھے یقین ہے کہ کتاب جلد ہی جدید اور لمحہ بہ لمحہ ٹیکنالوجی کے عارضی سحرسے جلد ہی باہر نکل آئے گیاور کتاب کوقاری کی بے رخی کی شکایت نہیں رہے گی۔ اور پھر اس کیاداسی ختم ہو جائے گی۔ جدیدیت کے اس دور میں کتاب کی اداسی کی بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے حرف جڑتے ہیں تو لفظ بنتے ہیں۔ اور لفظوں میں معنی اور محسوسات کی ترسیل سے انسانی ذہن کا گرفت میں آنا ایک فطری عمل ہے۔

مشین اس سے محروم ہے۔ انسان نے جب سے سوچنا شروع کیا ہے اور اشیاء کی ماہیت کو سمجھنا شروع کیا ہے۔اظہار اس کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ شکم سیری کے بعد انسان میں جو اولین خواہش پیدا ہوتی ہے وہ اظہار ذات کی ہے اور اظہار ذات جو لفظوں کی صورت میں ہو تو اس خوبصورت مرقع کا نام کتاب ہے۔ تیز رفتار زندگی کے مسائل کے عالم میں کتاب کے ساتھ دوستی اور اس کے لیئے وقت نکالنا ناممکنات میں سے ہے۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر:سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔mubarakshamsi@gmail.com