بوسنیا کی تقسیم قطعاﹰ قبول نہیں کریں گے، یورپی یونین

Joseph Borrell

Joseph Borrell

میونخ (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے نگران عہدیدار یوزیپ بوریل نے کہا ہے کہ بلقان کی ریاست بوسنیا میں پائی جانے والی موجودہ کشیدگی بہت تشویش ناک ہے مگر یورپی یونین بوسنیا کی کوئی بھی ممکنہ تقسیم قطعاﹰ تسلیم نہیں کرے گی۔

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میں جاری تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے آخری دن یوزیپ بوریل نے آج اتوار کے روز بوسنیا ہیرسے گووینا کے رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ بلقان کی اس ریاست کی مستقبل میں ممکنہ جغرافیائی تقسیم کا راستہ روکیں۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں یورپی یونین کے اس اعلیٰ ترین سفارت کار نے کہا، ”بوسنیا کی موجودہ صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ یہ صورت حال کبھی بھی بہت آسان نہیں رہی، لیکن وہاں اس وقت نظر آنے والے رجحانات حقیقی طور پر انتہائی پریشان کن ہیں۔‘‘
بوسنی سرب رہنما پر امریکی پابندیاں

بوسنیا کی جنگ کے اختتام کا سبب بننے والا ڈیٹن امن معاہدہ امریکی کوششوں سے امریکا ہی میں اسی نام کے ایک شہر میں ایک چوتھائی صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل طے پایا تھا۔ بلقان کی اس ریاست کی تازہ صورت حال کے پیش نظر امریکا نے گزشتہ ماہ میلوراد ڈوڈک پر نئی پابندیاں بھی لگا دی تھیں۔

میلوراد ڈوڈک بوسنیا ہیرسے گووینا کی وفاقی ریاست کی جغرافیائی حدود کے اندر اس بوسنی سرب جمہوریہ کے رہنما ہیں، جو جمہوریہ سرپسکا کہلاتی ہے اور جس کا انتظام بھی بوسنی سربوں ہی کے پاس ہے۔

ڈوڈک کا گزشتہ کئی برسوں سے مطالبہ ہے کہ بوسنی سرب جمہوریہ سرپسکا بوسنیا ہیرسے گووینا کی وفاقی ریاست سے علیحدہ ہو جائے اور پھر اسے ہمسایہ ملک سربیا میں شامل کر دیا جائے۔ امریکا نے جنوری میں میلوراد ڈوڈک پر نئی پابندیاں لگاتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ ‘کرپٹ نوعیت کی سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں اور پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔

بوسنیا ہیرسے گووینا میں پائی جانے والی شدید سیاسی بے چینی کے تناظر میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ بوریل نے کہا، ”میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ ہم امریکا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ میری امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے اس بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور ہم نے کھل کر خبردار بھی کر دیا ہے۔ ہم بوسنیا ہیرسے گووینا کی موجودہ ریاست کی جغرافیائی تقسیم یا اس میں کسی بھی قسم کی ٹوٹ پھوٹ برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

یوزیپ بوریل نے مزید کہا کہ وہ بوسنی سرب رہنما میلوراد ڈوڈک کے ساتھ بھی رابطے میں رہے ہیں، جس دوران انہوں نے ڈوڈک پر زور دیا کہ وہ بوسنیا ہیرسے گووینا میں تمام موجودہ ریاستی ڈھانچوں میں اپنی اور بوسنی سرب جمہوریہ کی شرکت کو یقینی بنائیں۔

بوسنی سربوں کی قیادت کی کوشش ہے کہ اب تک کے مشترکہ ریاستی انتظامات کے برعکس، جمہوریہ سرپسکا کا عوامی ٹیکسوں کی وصولی کا اپنا نظام اور اپنی علیحدہ عدلیہ ہونے چاہییں۔ اس کے علاوہ سرپسکا کی مسلح افواج بھی اپنی ہونا چاہییں۔

نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ ایسی طویل خونریزی تھی، جو برسوں تک جاری رہی تھی اور جو اس براعظم میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بدترین جنگ تھی۔ اس جنگ کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہوئے تھے اور کئی ملین بے گھر بھی ہو گئے تھے۔

ڈیٹن معاہدے کے تحت بوسنیا ہیرسے گووینا میں دو مختلف حکومتی اکائیاں قائم کی گئی ہیں۔ ایک بوسنی سرب جمہوریہ جس کا انتظام بوسنی سربوں کے پاس ہے اور دوسری وہ بوسنی کروآٹ فیڈریشن جس کا انتظام مشترکہ طور پر بوسنی مسلمانوں اور کروآٹوں کے پاس ہے۔

ان دونوں حکومتی اکائیوں کو بوسنیا کے مشترکہ ریاستی اداروں کے ذریعے باہم مربوط کیا گیا ہے اور ریاستی سطح پر تمام اقدامات کے لیے بوسنیا ہیرسے گووینا کے تمام نسلی گروپوں کو جملہ حکومتی فیصلے اتفاق رائے سے کرنا ہوتے ہیں۔