اسلام آباد کا سمندر

Pakistan

Pakistan

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے میرے ایک قائد نے یورپ سے پاکستان آنا تھا ،میری ڈیوٹی ان کے استقبال پر لگائی گئی،اور ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ استقبال شاندار ہونا چاہیئے،میں بہت پریشان تھا کہ اسلام آباد میں میرے کچھ دوست تو اس استقبال میں آجائیں گے اور کچھ اپنے گائوں اور کالج سے بھلا، لوں گا،لیکن پھر بھی استقبال بھرپور نہ ہو گا۔ میں اور میرے ایک اور دوست جن کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا ،دونوں استقبالیہ بینر بنوانے کے لئے ایک پینٹر کے پاس گئے توباتوں باتوں میں پینٹر نے ہماری پریشانی کو بھانپ لیا، اور فوراََ بول پڑا کہ جناب پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ،آپ کے استقبال کا بندوبست میں کر دوں گا۔

آپ صرف اپنی ریکوائرمنٹ بتائیں، کہ آپ کے استقبال میں کس قسم کے شرکاء ہونے چاہیے۔اور پھر اس نے ہمیں مختلف کیٹگری کے ریٹ بتانے شروع کر دئیے، بچوں، عورتوں، مردوں ،سکولوںکے بچوں اورمدرسے کے بچوں کے،سب کے الگ الگ ریٹ تھے،میں یہ سب سن کر بہت حیران ہوا،اور میرے استفسار پر بتانے لگا کہ جناب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے سیاسی جلسے ایسے ہی کامیاب ہوجاتے ہیں ان سب کے پیچھے ہمارے جیسے ہزاروں ٹھیکدارہوتے ہیں ۔میں نے اس سے پوچھا کہ یار میں مختلف پارٹیوں کے جلسوں میں آتا رہا ہوں ،ان میں تو ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں،میری بات سن کے وہ بڑی زہریلی ہنسی ہنستے ہوئے گویا ہوامحترم ڈاکٹر صاحب اب سیاست دان سمجھ دار ہو گئے ہیں،وہ حساب کتاب لگاکرجلسے کا اہتمام کرتے ہیں۔

وہ ٹرانسپورٹ،کھانا،اور دوسرے سب اخراجات نکال کر جلسہ کرتے ہیں،اگر وہ اپنے ورکرز کو بھلائیں گئے تو ان کے ناز نخرے بھی اٹھانے پڑیں گئے اور خرچہ پانی بھی لگانا پڑے گا،اور اگر ہم سے وہ ٹھیکہ کریں گئے تو ہم کم خرچے میں ایسا جلسہ کریں گئے کہ دوسری پارٹیوں پر تو نہیں البتہ عام عوام پر اس کی دھاک ضرور بیٹھ جائے گی ،اور مختلف TV والے ٹھاٹھے مارتے سمندر کی کوریج ایسے کریں گئے کہ بس ابھی انقلاب آجائے گااورابھی ملک تباہ ہو جائے گا۔میرے وہ دوست جو میرے ساتھ اس استقبال میں شریک تھے وہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے جو اوپر لکھا ہے وہ سب حقیقت پرمبنی ہے اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیںکی، اور سب سے حیرانگی مجھے اس وقت ہوئی جب ہمارے مہمان ائیرپورٹ پر اترے تو میرے کرائے پر لائے ہوئے میزبانوں نے وہ کمال نعرے بازی کی کہ ایسے لگ رہا تھا کہ ہمارا اس پارٹی سے کوئی تعلق ہے۔

ہی نہیں بلکہ اصلی اور خون دینے والے کشمیری تو وہ ہیں، ہمارے میزبان بھی اس تاریخی استقبال پر بہت خوش ہوئے ،کیونکہ اسلام آباد ائیرپورٹ ان کے نعروں سے گونج رہا تھا۔اور کمال کی بات اس کے چند روز بعد ہوئی، میں اپنے مہمانوں کو ہالیڈے ان ہوٹل میں لے کر گیا تو وہاں میری ملاقات ،اسی شہزادے سے ہوئی جو ہمارے استقبال کے لئے کرائے کے لوگ لے کر ائرپورٹ آیا تھا،میں نے پوچھا شہزادے آج کیا پروگرام ہے ،تو اس نے کہا ڈاکٹر صاحب آج جناب جرنل ضیاء الحق صاحب کی برسی ہے ،اور میں پورے دوہزارے بندے لے کر آیا ہوا ہوں ، آج جناب اعجازالحق صاحب کی بلے بلے کروا دی ہے جناب۔۔۔۔ میں مسکرایا اور اپنے مہمانوں کے پیچھے ہو لیا،اس نے پھر آواز لگائی ،کہ ڈاکٹرصاحب آئندہ بھی کوئی کام شام ہوا تو اپنے شہزادے کو ضرور یاد رکھنا،یہ 2006 کا واقعہ ہے۔

Freedom March

Freedom March

خیر اس کے بعد میں نے کبھی ایسی ذمہ داری نہیں لی۔لیکن آج بھی جب میں ان مداری گروں کے ٹھاٹھے مارتے سمندروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا شہزادہ یاد آجاتا ہے اور وہ دھرنایالانگ مارچ جسکا بھی ہو اس میں جیالوں سے زیادہ کرائے کے لوگ شامل ہوتے ہیں، میں آج TV دیکھ رہا تھا تو مجھے عمران خان صاحب اور جناب طاہرالقادری صاحب کے جلسوں میں مجھے اپنا شہزادہ نظر آیا ،وہ دونوں اطراف میں بڑے زوروشور سے نعرے لگا رہا تھا،اور اس کے ساتھی بھی نظر آئے مجھے،اور یہ سب دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا کہ اگر ان کرائے کے لوگوں نے ہی انقلاب لانا ہے تو پھر ہمارا اور ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ، میری مولاناڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اور کپتان صاحب سے مودبانہ گذارش ہے کہ جوقوم کی خدمت کا درد آپ کے پیٹ میں اٹھا ہوا ہے۔

خدارہ اس کے لئے آپ اپنے صوبے میں ترقیاتی کام کروا کر ختم کیجئے،ہم آپ کے ساتھ چلنے والے تمام سیاست دانوں کو جانتے ہیں ،چوہدری برادران جو آپ کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے، ان کے اپنے شہر میں کیا صورت حال ہے ،خدا کے لئے قوم اور ملک پر رحم کریں اور ترقی کی گاڑی جو چلی ہے اسے چلنے دیں،اگر شریف برادران یا ان کی فیملی کما رہی ہے اور قرضے بڑا رہی ہے تو آپ کیوں دبلے ہوئے جا رہے ہیں آپ نے کون سا جیب سے دینا ہے یا آپ نے اپنے اساسے ملک میں لانے ہیں ،جو آپ سب کو قوم کی اتنی فکر کھائے جا رہی ہے۔

یہ فکر قوم کی نہیں بلکہ کرسی کی ہے ، رشوت خور آفسروںکو بچانے کی ہے، بیوروکریٹس ،اور ٹیکنوکریٹس کو بچانے کی ہے خدارہ بس کریں ،اور پاکستانی قوم کو سکھ کا سانس لینے دیں،ہماری سادہ لوح عوام ہمیشہ محمدۖ اور اللہ کے نام پر بکتی چلی آئی ہے۔میڈیا بھی جو منفی صحافت کر رہا ہے ان کو بھی اک دن حساب دینا ہے ،پیسا یہیںرہ جائے گا،اور حساب لینے والا خوب حساب لے گا۔

Tariq Javed

Tariq Javed

تحریر: طارق شاکر