جشن آمد رسول اور حب رسول کا تقاضا

Lighting

Lighting

تحریر : میاں محمد علی
آج کل ہر طرف روشنیوں کی بہار ہے شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں، بازاروں، محلوں اور گلیوں کو خوبصورت رنگ برنگے برقی قمقموں سے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجایا جا رہا ہے اور جیسے جیسے 12ربیع الاول کا دن قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے ہی امت مسلمہ کے جوش خروش میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔12ربیع الاول کے دن امت مسلمہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آخرالزماں، نور مجسم، رحمتہ للعالمین، فخر موجودات ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے طور پر انتہائی جوش و خروش اور مذہبی عقیدت و احترام سے مناتی ہے، اس دن کو عید میلادنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کہاجاتا ہے ۔ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی امت مسلمہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی محبت اور عقیدت اظہار کرتے ہوئے محافل ذکر و نعت کا انعقاد کر تی ہے اور اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں گھروں ،بازاروں ،دوکانوں اور گلیوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور خو بصوت روشنیوں سے سجانا شروع کر دیتی ہے ،مرد ہوں یاخواتین،جوان ہوں یا بوڑھے یا پھر بچے ہر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سر شار ہو کر عقیدت کے پھول نچھاور کر رہا ہوتا ہے ،ہر سُو جشن کا سماہو تا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے دنیا جہالت اور کفر کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ،روح زمین پر چند لوگوں کے سوا ہر کوئی گمراہی کا شکار تھا،معصوم لوگوں کا قتل عام ،شراب نوشی ،زنا ،جوا ،کمار بازی ،ڈکیتی ،کرپشن ،لوٹ مار ،کون سی برائی تھی جو اس وقت کے لوگوں میں نہیں تھی ،ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر اہل زمین پر احسان عظیم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری دنیا کیلئے رہبر بنا کر بھیجاتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی فر مائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب قبیلے بنی قریش کے سب سے معتبر خاندان بنو ہاشم میں حضر ت عبدللہ اور حضرت بی بی آمنہ کے گھر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی اس دنیا سے جا چکے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش دائی حلیمہ سعدیہ نے کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس برس کے ہوئے تو ایک دن حسب معمول مکہ کے قریب واقع غار حرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ اللہ تعالی نے فرشتہ جبرائیل کی وساطت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کے منصب پر سر فراز فرمایا اور اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باقاعدہ دین اسلام کی تبلیغ شروع کی تو مکہ کے بڑے بڑے سردار وں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی اور مسلمانوں پر ظلم و تشدد کیا حتیٰ کے وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے دشمن ہو گئے ۔ مختصر یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے حکم سے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کی جانب ہجرت کر گئے ۔بعد ازا ں وور رسالت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مدینہ کی مسلم ریاست کی بنیاد رکھی گئی ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا آخری حج بیت اللہ ادا کیا جو حجتہ الوداع کہلاتا ہے اس حج میں آپ کے ساتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام موجود تھے ۔ ایک راویت کے مطابق بارہ ربیع الاول کے ہی دن گیارہ ہجری یوم دوشنبہ کو چاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا فانی سے پردہ فرمایا، اس وقت آپ کی عمر مبارکہ تریسٹھ سال چار دن تھی۔
سلام اے آمنہ کے لعل اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات فخر نوعِ انسانی

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

قارئین کرام ! آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا یہ انتہائی مختصر سا جائزہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے وگرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصاحت و بلاغت پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحم دلی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انداز بیاں پر غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے کسی ایک پہلو پر بھی تفصیل سے لکھنا شروع کر دیا جائے اور اگر اس دنیا کے سارے درخت کاغذ اور قلم بن جائیں اس دنیا کے سارے دریا اور سمندر سیاہی بن جائیںتو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔قارئین کرام ! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس دین اسلام کی اشاعت کیلئے دنیا پر تشریف لائے وہ دنیا کا سب سے بہترین دین ہے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا ئے اور آپکے امتی (مسلمان) کہلائے وہ دنیا کی سب امتوں میں سے بہترین امت ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ ھ رہا ہے کہ آج یہ امت مسلمہ پوری دنیا میںتنزل کا شکار ہے ،آج اس امت کو دنیا میں دہشت گرد بنا کر پیش کیا جارہا ہے ،پوری دنیا میں اسلام مخالف قوتیں مل کر آج اس امت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے جال بُن رہی ہیں۔

دوسری طرف امت مسلمہ خود بھی اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے ،بدقسمتی سے امت مسلمہ کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔دشمن تو دشمن آج ہم خود ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں ،ایک دوسرے کے خلاف کفر اور واجب القتل کے فتوے دئیے جارہے ہیں ،زمانہ جہالت کی طرح آج وہ کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہ ہوگی ،معصوم لوگوں کا قتل عام ،شراب نوشی ،زنا ،جوا ،کمار بازی ،ڈکیتی ،کرپشن ،لوٹ مار،بچیوں کا قتل آج ہم ان سب اور ان جیسی کئی اور برائیوں کا شکار ہو چکے ہیں ،آج ہم کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن صرف نام کے مسلمان۔بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
خِرد نے کہہ بھی دیا لا اِلہ توکیا حاصل
دِل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

قارئین کرام !کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم برائیوں شکار کیوں ہوتے جا رہے ہیں ؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج پوری دنیا میں ہماری تنزلی کیوں ہو رہی ہے؟ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم دن بدن دین اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں ، خداکے فرمان کی نافرمانی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی آج ہماری تنزلی کی اصل وجہ ہے ۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال پہلے جو تعلیمات دیں تھیں جب تک امت مسلمہ ان تعلمیات پر من و عن عمل کرتی رہی اس وقت تک اس امت مسلمہ کو عروج ہی عروج تھا اور پھر جیسے جیسے امت مسلمہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فرموش کرتی چلی گئی ویسے ویسے امت مسلمہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی ۔ آج ہم آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن بھی منارہے ہیں ،ہم غلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ااور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے دعوئے دار بھی ہیں ،لیکن کبھی ہم نے یہ بھی سوچاہے کہ ہم جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق اور غلام ہونے کا دعوی کر رہے ہیں اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟ ۔آج بھی ہم سے حُب ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر چلیں اور اپنی زندگیوں کو قران سنت کی روشنی میں گذاریں اسی میں ہماری بھلائی ہے اسی میں تمام امت مسلمہ کی بھلائی ہے ۔قارئین کرام! اگر آج بھی ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اپنا لیں اور نام کی بجائے حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کے ہم دوبارہ اس دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں ،کیونکہ دنیا و آخرت کی بھلائی خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چل کر ہی ممکن ہے۔

Mian Muhammad Ali

Mian Muhammad Ali

تحریر : میاں محمد علی