تصدیق کے بین الاقوامی معیارات طے، مگر جنگی جرم ہوتا کیا ہے؟

International Criminal Court

International Criminal Court

روس (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس کی طرف سے یوکرین میں جنگی جرائم کے ممکنہ ارتکاب کی باقاعدہ چھان بین کرے گی۔ ایسے جرائم کے ارتکاب کی تصدیق کے لیے مسلمہ بین الاقوامی معیارات پہلے سے طے ہیں۔

روسی فوج چوبیس فروری کے روز یوکرین پر چڑھائی کے بعد سے زیادہ سے زیادہ شہری اہداف کو فضائی حملوں اور توپوں سے گولہ باری کا نشانہ بنا رہی ہے، جن کی وجہ سے یہ خدشات بھی زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کہ ماسکو اس جنگ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ روسی فوج یوکرین پر اندھا دھند اور بلاامتیاز حملے کر رہی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا موقف

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ملک میں شہری علاقوں پر روسی میزائل حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور ایسے تازہ ترین حملے اسی ہفتے منگل کے روز بھی کیے گئے، جب روسی فوج نے خارکیف کے آزادی چوک کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔

نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے بدھ دو مارچ کی شام اعلان کیا کہ وہ یوکرین میں روس کی طرف سے ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی باقاعدہ تفتیش کرے گی۔ اس عدالت کے مستغیث اعلیٰ کریم خان نے ایک بیان میں کہا کہ ایسی ‘مناسب وجوہات‘ موجود ہیں، جن کی بنا پر یہ چھان بین شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے شواہد جمع کرنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔
‘جنگ کے قوانین‘

بین الاقوامی سطح پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے تعین کے لیے طے شدہ معیارات موجود ہیں اور جنگی جرائم کو انسانیت کے خلاف جرائم سے گڈ مڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جنگی جرائم کی تعریف یہ ہے کہ کسی تنازعے میں بنیادی انسان دوست قوانین کی سنجیدہ خلاف ورزیاں کی جائیں۔

جنگی جرائم کی یہ تعریف 1949ء کے جنیوا کنوینشن کی روشنی میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے اپنے اطالوی دارالحکومت ‘روم کے ضابطے‘ میں کر رکھی ہے۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر رکھی گئی ہے کہ کسی ملک یا فوج کے اقدامات کے لیے انسانوں کو انفرادی طور پر جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے نسل کشی کی روک تھام اور تحفظ کی ذمے داری کے دفتر کے مطابق جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں واضح تفریق کی جانا چاہیے۔ جنگی جرائم کی قانونی تعریف کے مطابق ان کا ارتکاب کسی داخلی تنازعے یا دو ممالک کے مابین جنگ میں کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس نسل کشی یا انسانیت کے خلاف جرائم ایسے اقدامات ہیں، جن کا ارتکاب زمانہ امن میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی غیر مسلح گروہ یا برادری کے خلاف یک طرفہ عسکری جارحیت کے دوران بھی۔

ایسے غیر منصفانہ اور مجرمانہ اقدامات اور اعمال کی فہرست بہت طویل ہے، جنہیں جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یرغمال بنا لینا، دانستہ ہلاکت، تشدد، جنگی قیدیوں سے غیر انسانی سلوک اور بچوں کو کسی تنازعے میں مسلح لڑائی پر مجبور کرنا ایسی چند مثالیں ہیں، جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
عملی طور پر غیر واضح صورت حال

جنگی جرائم کی چھان بین اور ان کے ارتکاب کی تصدیق کے حوالے سے چند مخصوص پہلو قدرے غیر واضح بھی ہیں۔ کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی کے عالمی امور اور پبلک پالیسی کے مَنک اسکول کے ایک ماہر مارک کَیرسٹن کہتے ہیں، ”جنگ کے قوانین عام شہریوں کو موت سے بچانے میں ہمیشہ ہی مددگار ثابت نہیں ہوتے۔ قانونی طور پر کسی عام شہری کی موت کا ہر واقعہ لازمی نہیں کہ غیر قانونی بھی ہو۔‘‘

اگر جائز عسکری ضرورت اور اس کے حق میں دلائل موجود ہوں، تو لازمی نہیں کہ شہروں اور دیہات پر حملے، اسکولوں یا رہائشی عمارات پر بمباری، حتیٰ کہ عام شہریوں کے گروپوں تک کی ہلاکت بھی جنگی جرائم سمجھے جائیں۔ لیکن اگر نتیجہ غیر ضروری تباہی، مصائب اور ایسی اموات کی صورت میں نکلے، جو نقصانات کے طور پر ایسے اقدامات سے ہونے والے عسکری فائدے سے بھی بڑے ہوں، تو پھر ایسے جملہ اقدامات کو جنگی جرائم ہی سمجھا جائے گا۔

اصولِ تفریق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ عام سول آبادیوں، بظاہر عسکری اہمیت کے حامل سمجھے جانے والے اہداف اور کسی بھی تنازعے میں حقیقی حریف گروپوں کے مابین مستقل اور واضح طور پر تفریق کی جائے۔ یہ تفریق عملاﹰکبھی کبھی بہت مشکل بھی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی ایسی فوجی بیرک پر حملہ کرنا بھی جنگی جرم ہو گا، جہاں ایسے لوگ موجود ہوں جو اس تنازعے میں مزید حصہ نہ لینا چاہتے ہوں۔

مارک کَیرسٹن کے مطابق، ”کسی ایسے فوجی اڈے پر بمباری بھی جنگی جرم ہی سمجھی جائے گی، جہاں مثلاﹰ ہسپتالوں کو بجلی فراہم کرنے والے جنریٹر لگے ہوں۔‘‘ آج کل کے دور میں سول اور ملٹری آبادیوں کے مابین تفریق کرنا بھی بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ”اب سبوتاژ کرنے والے اور فوجی افسر سول لباس میں بھی نظر آتے ہیں جبکہ جنگوں میں متحارب فریق اکثر اپنی شناخت چھپانے کے لیے حلیے بدل لیتے ہیں۔ یہ عسکری چال اب بہت عام ہو چکی ہے۔‘‘

اصولِ تناسب مسلح افواج کو اس امر سے روکتا ہے کہ وہ کسی حملے کے جواب میں طاقت اور تشدد کا انتہائی زیادہ اور غیر متناسب استعمال کریں۔ مارک کَیرسٹن نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اگر کسی فوج کا ایک سپاہی مارا گیا ہو، تو جواباﹰ کسی پورے کے پورے شہر پر بمباری نہیں کی جا سکتی۔‘‘

بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کا کہنا ہے کہ اسی اصول کے تحت ایسے اہداف کا نشانہ بنانا بھی غیر قانونی ہوتا ہے، جن کی وجہ سے شہری زندگیوں کا حادثاتی ضیاع ممکن ہو، عام شہری زخمی ہو جائیں یا شہری املاک اور اہداف کو نقصان پہنچے۔ اس دوران یہ دھیان بھی رکھنا ہوتا ہے کہ شہری نقصان کسی بھی طرح براہ راست فوجی فائدے سے بہت زیادہ نہ ہو۔

اصولِ احتیاط کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسلح تنازعے کے تمام فریق اس بات کو یقینی بنائیں کہ سول آبادی کو پہنچنے والے نقصانات سے سرے سے بچا جائے یا انہیں ہر ممکنہ حد تک کم سے کم رکھا جائے۔

جب بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ماہرین استغاثہ کو کافی زیادہ حد تک شبہ ہو کہ کسی بھی تنازعے میں جنگی جرم یا جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے، تو وہ شواہد کی تلاش میں ایسی باقاعدہ چھان بین شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مخصوص افراد کی ان جرائم کے ذمے دار عناصر کے طور پر نشان دہی کی جا سکے۔

ٹورانٹو یونیورسٹی کے پبلک پالیسی امور کے ماہر مارک کَیرسٹن کے الفاظ میں، ”یوکرین میں روس کے مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے یہی وہ لمحہ ہے، جس میں بین الاقوامی عدالت اب باقاعدہ تفتیش کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘

اس تفتیشی عمل میں اس کی رفتار فیصلہ کن ہوتی ہے، کیونکہ جنگی جرائم کے ثبوت وقت کے ساتھ ناکارہ بھی ہو جاتے ہیں اور سرے سے ناپید بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی تنازعے میں کوئی ایک بھی فریق شواہد میں رد و بدل کر دے یا گواہان ہی دستیاب نہ ہوں، تو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ماہرین استغاثہ کے لیے کسی بھی جنگی جرم کی کامیاب چھان بین انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔