کردار شخصیت کا آئینہ دار

Character

Character

تحریر : شیخ توصیف حسین

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اعلی خون میں جفا نہیں جبکہ گندے خون میں وفا نہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اعلی خون کے سپوت کو اگر آپ بُرے وقت میں پانی کا ایک گلاس پلا دو گے تو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا اور اگر آپ گندے خون کے سپوت کو اپنا خون بھی دے دو گے تو وہ بھول جائے گا اگر آج آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج کے اس پر آ شوب معاشرے میں اعلی خون کے سپوت پردہ سکرین سے آ ئوٹ ہو کر تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ گندے خون کے سپوت حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ انسانیت کی تذلیل کر کے اپنے آپ کو ہلاکو خان اور چنگیز خان سمجھتے ہوئے مظلوم اور بے بس افراد کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ در حقیقت تو یہ ہے کہ آج ملک و قوم جس قدر پریشانی سے دوچار ہے یہ صرف اور صرف ان ناسوروں کے بد کردار ہونے کا نتیجہ ہے جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔

یہی کافی نہیں یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر ہر ادارے میں خواہ وہ صو بائی ہے یا پھر وفاقی رشوت خوری کے نظام کو فروغ دینے میں دن بدن مصروف عمل ہو کر قانون اور عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑانے میں کوشاں ہیں جن کے اس گھنائو نے اقدام کو دیکھ کر انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران بلدیہ جھنگ کے چند ایک خاکروب جن کے ہونٹ مر جھائے ہوئے پتوں کی طرح خشک آ نکھوں میں آ نسو موسلا دھار بارش کی طرح پھٹے پرانے کپڑے جبکہ سر کے بال آ وارہ بادلوں کی طرح بکھڑے ہوئے میرے دفتر میں داخل ہو کر بڑی بے بسی کے عالم میں کہنے لگے کہ ہم جائیں تو جائیں کہا ہمیں انصاف کو ن دے گا ہم فریاد بھی کرے تو کس سے کرے اس پر آ شوب معاشرے میں جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھا ہے میں ہماری فر یاد پر عمل کون کرے گا۔

اُن کی ان باتوں میں ایک درد تھا بے بسی و لا چارگی تھی جس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اُن سے بڑی اپنائیت کے ساتھ پو چھا کہ تمھارے ساتھ کس نے ظلم و ناانصافی کی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہر دور میں یہاں کے سیاست دانوں اور بلدیہ انتظامیہ نے ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کی ہے ان کا ہمیشہ لب و لہجہ ہمارے ساتھ ایسا رہا ہے کہ جیسے ہم ان کے زر خرید غلام ہیں حالانکہ ہم دن رات صحت و صفائی کے نظام کو بہتر بنا نے میں کو شاں رہتے ہیں اس کے باوجود بلدیہ انتظامیہ جھنگ ہمیں بر وقت تنخواہ دینے سے قاصر رہی ہے اور تو اور اس دوران ہمارا کوئی ساتھی موت کی آ غوش میں پہنچ جاتا ہے تو بلدیہ انتظامیہ جھنگ رشوت وصول کیے بغیر پنشن دینا بھی گناہ کبیرہ سمجھتی ہے اور تو اور ہمارے سینٹری انسپکٹر جو جعلی اسناد کے ذریعے تعنیات ہوئے ہیں ہم سے ماہانہ بھتہ وصول کر نے میں مصروف عمل ہیں اور اگر ہم ان کے اس گھنائو نے کردار پر احتجاج کرتے ہیں تو یہ ناسور ہمیں ہراساں کر نے کیلئے ہماری دہاڑیاں کاٹ دیتے ہیں۔

یہی کافی نہیں یہ وہ ناسور ہیں جو صفائی کے نظام کو بہتر بنا نے کے آ لات کی رقوم بھی از خود ہڑپ کر جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم اپنی تنخواہ سے جھاڑو وغیرہ بھی خریدتے ہیں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ ہم اپنی باقی ماندہ تنخواہ سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے بعض اوقات تو ہم بھو کے پیاسے سو جاتے ہیں اور اگر ہمارا کوئی عزیز و اقارب و فات پا جائے یا پھر ہم اپنی جواں سالہ بیٹیوں کی شادیاں کریں تو ہماری تنخواہیں سود کی نظر ہو جاتی ہیں جس کیلئے بلدیہ انتظامیہ جھنگ نے شو کت نامی شخص جو کہ بلدیہ انتظامیہ جھنگ کا کمائو پتر ہے کے ذریعے ہمارے چیکوں کے ذریعے ہماری تنخواہیں سود سمیت نکلوا کر بلدیہ انتظامیہ جھنگ کو حصہ بحثیت جسہ دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں شو کت نامی شخص جو در حقیقت ایک خاکروب ہے آج کروڑوں روپے مالیت کی پراپرٹی کا مالک ہے جس کی اگر کوئی اس ملک کا صادق و امین آفیسر تحقیقات کرے تو انشاء اللہ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہو جائے گا افسوس کہ ہم خاکروب ہیں اس لیے ہماری کوئی فریاد سنتا نہیں یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہاں پر کمائو پتروں کی ہر آ فیسر خیال و عزت کرتا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے آڈٹ آ فیسر عمیس ذیشان نے ایک کمائو پتر اکرم چوہدری جو درحقیقت چو کیدار بھرتی ہے کو اپنے مد مقابل میز اور کرسی لگوا کر پورے دفتر کی دیکھ بھال کیلئے تعنیات کر رکھا ہے اور وہ بھی غیر قانو نی طور پر جس کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر جنگل کا قانون رائج ہے۔۔۔جاری ہے

Sheikh Tauseef Hussain

Sheikh Tauseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین