اماں حائمہ

Ertugrul Ghazi

Ertugrul Ghazi

تحریر : شاہ بانو میر

بلا رنگ و نسل اور عمر کسی ڈرامے نے
اگر
بیداری شعور کا کارنامہ سر انجام دیا ہے
تو یہ سہرا ارطغرل کو جاتا ہے
کونسا گھر ہے
کونسا ملک ہے
جو اس کے سحرمیں نہیں ڈوبا ہوا
بھٹکی ہوئی نوجوان نسل اس سے مرعوب ہو گئی
اماں حائمہ کی بچوں بڑوں کی تربیت
مشکل وقت میں
اللہ پاک کی طرف نگاہیں
قبیلہ ایک گھرانے سیکڑوں
ان سب کومتحد رکھنے ولی ایک عورت
اماں حائمہ
قبیلہ کو مجاہدین کی غیر موجودگی میں تحفظ دینے والی
یوں قائی طاقت بن کر تین بر اعظموں تک پھیلانے کا سہرا
ایک ماں کو جاتا ہے
جس نے گھروں کی فکروں سے مردوں کو آزاد رکھ کر
مقصد اسلام پر مرکوز رکھا
روپیہ پیسہ نہیں تھا
مگر
اخلاص پیار لامتناہی تھا
جس کی وجہ سے
کئی حسین و جمیل شہزادیاں محل چھوڑ کر قبیلہ میں رچ بس گئیں
دوسری جانب مجاہدوں کی دنیا تھی انہیں آگے اور آگے جانا تھا
گھوڑوں کی سحر زدہ ٹاپیں
جزبہ ایمانی کے ساتھ دشمن کو دھول چٹاتی مٹی
ایک ایک کے بعد بلند و بالا مضبوط دیواریں ڈھ گئیں
قائی قبیلے کے سردار ارتغرل کے بارے میں
صلیبی کمانڈر کہتا ہے
ارطغرل کو ہرا نہیں سکتے
اسکی کامیابی تلوار میں نہیں اس کے عزائم میں ہے
جب سے قرآن سے جڑ کر مقصد حیات کی طرف یہ ناتواں قدم اٹھنے لگے
ہر کتاب زندگی سے نکل گئی
لامحدود الکتاب کی علمی وسعت میں کھو گئی
اتنی مسحور تھی اس دنیا میں کہ فرصت کیا ہے؟
لفظ کا مطلب ہی بھول گئی
طاقتور سچا اسلام جو قائی قبیلہ کی وراثت بنا
قرآن مجید کے بھولے ہوئے اعلیٰ اسباق کیسے کہانیوں کی صورت
اماں حائمہ اپنے پوتوں کو اور چاروں بیٹوں کو گاہے بگاہے سنا کر
جیسے ہم ماوں کو پیغام دے رہی ہیں
کہ
تعمیر وطن ایسے ہی نہیں ہو جاتی
پرورش ایسی ہوگی تو ہی
مشکل وقت پر بچوں کو سنی ہوئی آیات حوصلہ دیتی ہیں
قائی قبیلہ خانہ بدوش تھا
مستقل زمین کے ٹکڑے اور وہاں اسلام کے نفاذ کا خواہاں تھا
صلیبیوں کی شرائط یا منگولوں کا غلام بن جاتا تو
زمین سامنے ہی تھی
شاہ سلیمان ہو یا ارطغرل دین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے
وہ وطن تو چاہتے تھے اپنی نسلوں کیلئے
لیکن
کشکول تھام کر بھیک منگی آسان بنیاد نہیں رکھنا چاہتے تھے
غیرت کے اسباق اور خون سے بنیادوں بھر کر
پیچھے غیور تاریخ چھوڑنا چاہتے تھے
کم ہی سہی لیکن محنت سے حاصل کرو
اللہ پر بھروسہ اور محنت پر یقین رکھو
منزل دور ہی سہی ملتی ضرور ہے
زمین کے اس ایک ٹکڑے کیلیے کتنے شہید ہوئے
انکے بڑہتے ہوئے مسلسل قدموں کے پیچھے وہ مضبوط ماں تھی
جس پر اسکے اپنے بیٹوں کو ہی نہیں
بلکہ
قبیلے کے ہر سپاہی کو بھروسہ تھا
اماں حائمہ سب کی ماں تھیں
سلیمان شاہ کی وفات کے بعد
بر اعظموں کی تسخیر تک
اس قبیلے نما کنبے کو اپنی حکمت سے بکھرنے سے بچایا
مگر ہم نے کیا دیکھا؟
ہمیشہ کا وہی سیاسی مزاج کچھ نہیں بدلا
برائیاں تھیں
جھوٹ تھے
مکاریاں تھیں
سازشیں تھیں
لیکن
سب دیسی انداز کی تھیں یعنی سادہ تھیں
اسی زمین کے رہنے والے ذہن تھے
آج
وہ سادہ سیاسی دشمنی کا زمانہ آج بھلا لگ رہا ہے
کیونکہ
اب جو وبال ریاست مدینہ کے نام پر آیا ہے
شہر اسلام آباد ریاست مدینہ
اور بت شکن بت فروش ہو گئے،
آج سادہ ان پڑھ غریب بد حال عوام پر
چند پڑھے لکھے اعلیٰ دماغ حاوی ہوگئے
غضب یہ ہے کہ
ان کو پکڑنا ہر کسی ادارے کے بس میں بھی نہیں ہے
کیونکہ
ویب سائٹ پر جو سب موجود ہے
اور
وہ کیا اور کتنا موجود ہے
یہ صرف ویب بنانے چلانے والے جانتے ہیں
انکی دانست میں یہ شفاف نظام ہے
جو اس سے پہلے کسی اور جماعت نے نہیں کیا
گھر کا بھیدی ہمیشہ ہی لنکا ڈھاتا ہے
انہی کے بنیادی رکن نے کیس کر کے بتانا چاہا
اب اگر ویب سائٹ پر اعدادو شمار اتنے ہی درست اور عدل پر مبنی ہیں تو
اتنی کیس میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟
پتہ چلا انصاف میرے ملک کا وہی قدیم ہی رہا
صرف انداز نیا ویب کی صورت آگیا
یہ صداقت کا دیانتداری کا کوئی واضح اصول نہیں ہے
جب آج ان پڑھ عوام پر تعلیمی امپریشن جھاڑنے کے لئے
ہر چیز اس عوام کو ویب پر دیکھنے کا مشورہ ملتا ہے
وزیر اعظم اس قوم کی نفسیات جانتا ہے
ان پڑھ سادہ لوح کہاں سے لیں گے کمپیوٹر
یہاں تو موبائل کی بساط ہی ٹک ٹاک تک ہے
ہوشیاری
ان پڑھ عوام کو پڑہی لکھی کہانیاں پڑہنے کا کہہ کر
اب آسان ہو گیا لوٹ مار کرنا ویب سائٹ کا دور ہے
کون جان سکے گا کہ
ان سیاہیوں میں کیا کیا جھوٹ پوشیدہ ہے
ایسا چاہیے تھا پاکستان ؟
جو چند ہاتھوں میں ہو؟
کیسا حساب ہے
پہلی جماعت ہے
جہاں ایسی ایمانداری آئی
جو اپنی رقوم کا حساب عدالت کو نہ دے سکی
لیکن
دیانتدار دوسروں کیلئے اتنی ہے کہ
قومی ائیر لائن کے نقائص غیروں کی طرح دھڑلے سے
دنیاکے سامنے بیان کر کے اسے بین کروا دیا
قومی ائیر لائن پرواز اب چھ ماہ تک پرواز نہیں کرے گی
زمین پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے اڑتے نہیں
نیا پاکستان
حکمران نے پر ہی کاٹ دیے
اس ملک کواماں حائمہ چاہیے

جو انکی زبان کو انداز کو کسی دائرے میں حد میں لائے
کہ
جب یہ کوئی خرابی دیکھیں تو بلا بلا ہلا گلا نہ بنا دیں
ملک کے وقار کو پیش نظر رکھ سکیں
اب یہ سب پاکستانی نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں
لہٰذا
اس ملک کا وقار داؤ پر لگے تو ان کو کیا
کوئی خامی کوئی کوتاہی دیکھے تو
صرف اماں حائمہ ہی ہو سکتی ہے جو
اپنی حکمت سے اندر بیٹھ کر ملک کے مفاد کو داؤ پر لگائے بغیر حل تلاش کرے
گھر خاندان ادارے ملک کیسے چلتے ہیں
یہ کیا جانیں؟
شکاری ہیں سب کے سب
نگاہیں گاڑے بیٹھے ہیں
ملک کے باقیماندہ خزانوں پر جو لٹنے سے بچ گئ
سوائے شور شرابے اور ہنگامے کے دو سال میں ہمیں کیاملا ہے؟
انکو پاکستان ایک فن لینڈ کے طور پر مل گیا
دوسری جانب
اس تہلکہ خیز تبدیلی جس کا انتظار ملک کے ساتھ پوری دنیا کو تھا
اس نے بتا دیا کہ
سیاست ہمیشہ تماشہ ہے
بس مداری بدلتا ہے
سیاسی ڈگڈگی کبھی ایک کے ہاتھ میں تو
کبھی دوسرے کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے
قدرت نے ترکی میں ایک مصنف کو سوچ دی حکومت وقت نے ترغیب دی
سہولیات فراہم کیں
یوں
تخلیق ہوا وہ ڈرامہ
جس نے امت مسلمہ کے نیم مردہ وجودکو جگا دیا
جزبوں میں گندھی ہوئی حقیقی درد کے ساتھ کی گئی اداکاری
گھر کا ماحول اسلامی ہو
قرآنی آیات کے ورد اور مطلب جب بچپن سے سمجھائے جاتے ہوں
اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ جو ماضی میں سازشوں سے کھو چکے
ایک قلم نہ صرف اہل ترک بلکہ اہل اسلام کی آواز بن کر
امت کو جگا دیا
للہ کے اذن سے
اسلام کی نئی تعبیر بن کر پوری دنیا میں پھیل گیا
ایک مشورہ ہے انکے لئے جو
قرآن کو ترجمے سے پڑہنا مشکل سمجھتے ہیں
وہ اس ڈرامے کو دیکھ کر
اسلام کو قرآن کو احادیث کو سن کرآسانی سے سمجھ سکتے ہیں
ارتغرل
جس کی بین القوامی کامیابی میں
اماں حائمہ کے کردار کا بہت بڑا ہاتھ ہے
ایسے کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
جولوگوں میں خیر بانٹتے ہیں
آج پھر سے پاکستان کو بھی
اماں حائمہ کی ضرورت ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر