بچے، ہمارا مستقبل ہیں

Exams

Exams

تقریبا پورے ملک میں سالانہ امتحانات کے رزلٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔ پوزیشن لینے والے بچے اور اُن کے والدین بہت خوش ہیں، اچھے یا کمزور نمبرز کے ساتھ پاس ہونے والے بھی ناخوش نہیں ہیں لیکن فیل ہونے والے بچے اور اُن کے والدین آنکھوں سے آنسوبہا رہے ہیں۔ سب سے پہلے اُن بچوں اوراُن کے والدین کو بہت بہت مبارک باد جنہوں نے پوزیشنز حاصل کیں۔ جو بچے اس سال کسی وجہ سے پوزیشن حاصل نہیں کرسکے یا فیل ہو گئے وہ پریشان ہونے کی بجائے پڑھائی پر توجہ دیں اور کوشش کریں کہ جو غلطیاں اس سال سرزد ہوئی آئندہ اُن سے بچاجا سکے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن بد قسمتی سے ہمارے گلی محلوں میںکھلے چھوٹے چھوٹے پرائیوٹ سکول کم پڑھے لکھے اور ناتجربہ کار لوگوں کو صرف اس لئے ٹیچر بھرتی کرلیتے ہیں کہ وہ کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ،یہ سوچ کر شرم آتی ہے کہ آج اَن پڑھ مزدور بھی 10ہزار ماہانہ سے زائد کما رہا ہے جبکہ ان سکولوں ٹیچرز کو 3 سے5 ہزار ماہانہ دیا جاتا ہے۔اب فیصلہ قارئین خود کریں کہ یہ کس قدر کام چور ہوں گے جو انتہائی مہنگے دورمیں 3 سے5 ہزار تنخواہ میں کام کرتے ہیں؟راقم اساتذہ جیسے مقدس پیشے کی شان میں گستاخی نہیں کرنا چاہتااس لئے اس موضوع کو حکومت وقت سے اس اپیل کے ساتھ ختم کروں گا کہ کسی بھی سکول میں ٹیچرز کی تنخواہ کم از کم عام مزدور جتنی لازم کی جائے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے ہر سالاچھے نمبرز لے کر پوزیشن حاصل کریں وہ اپنے بچوں کو کم از کم وقت ضرور دیا کریں۔

جی ہاں یہ بات سچ ہے کہ بچے والدین سے وقت مانگتے ہیں جو والدین کے لیے دینا آج کے جدید دور میں مشکل ترین کام ہے ،خاص کر والد کے لیے ہمارے ہاں مرد حضرات کام کے سلسلہ میں صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات کو دیر سے گھرلوٹتے ہیں ،والد کی کئی کئی دن بچوں کے ساتھ جاگتے میں ملاقات ہی نہیں ہو پاتی صبح سویرے بچے سورہے ہوتے ہیں اور رات واپسی پر بھی سوچکے ہوتے ہیں۔ فکر روزگار نے ہمیں اپنے بچوں سے اس قدر دور کردیا ہے کہ ہم ان کی پرورش کے لیے انہیں اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا کہ ان کو درکار ہوتا ہے۔ پانچ سے چھ سال کی عمرکے بچوں کے لیے گھر ہی پہلا مدرسہ ہوتا ہے جہاں بچے والدین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ چلنا، بولنا ، اٹھنے ، بیٹھنے کا طریقہ اور ہر طرح کا رویہ اختیار کرنا بچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں۔

Parents

Parents

والدین کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ذمہ دار رئویہ اختیار کریں گھر کے پر سکون ماحول میں پرورش پائیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے پرورش پانے والے تمام بچے ایک جیسا مزاج اختیار کریں ،والدین کے لیے ایسی صورتحال یقینا باعث اطمینان ہوتی ہے کہ اگر ان کے بچے رقابت کی بجائے مل جل کررہنا پسند کریں۔ تاہم یہاں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ بچوں میں اعتماد کارشتہ قائم رکھنا یقینا مشکل ہے لیکن ابتدائی عمر یعنی پانچ سے چھ سال کی عمر سے ہی بچوں کی اخلاقی ذہنی اور تعلیمی تربیت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کی تربیت بھی دی جائے تو کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ بہترین اور نہایت اہم وقت ہوتا ہے۔

کیونکہ پانچ چھ سال کی عمر کے بچے زیادہ تر گھر میں والدین کے پاس ہی رہتے ہیں اس لیے اس عر صے میں بچوں کی تربیت کی زمہ داری بھی ساری کی ساری والدین پر ہی ہوتی ہے۔بد قسمتی سے والدین جب بچوں کے سامنے مثبت اور یکساں رویہ نہیں رکھتے تب بچوں کو مثبت اور یکساں رویہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یکساںرویہ اختیار کرنا شائد ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کوایک جیسا عقل وشعور عطا نہیں کیا ہوتا ،تاہم مثبت رویہ اختیار کرنا ممکن ہے، ہم لوگ جھوٹ کی وکالت کرنااپنی عادت بنا چکے ہیں ، ہم بچوں کے سامنے سارا دن جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک اور بیماری بہت عام ہے کہ ہم چھوٹی عمر کے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ سکول و مدرسے شروع ہوتا ہے ۔یہ بڑی بیماری بھی ہماری ہاں کثرت سے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہم بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ کاسہارا لیتے ہیں۔یعنی بچہ کسی وجہ رو پڑے تو اسے چپ کروانے کے لیے مائیں کہتی ہیں ،وہ دیکھوں بلی آئی،وہ دیکھو چھپکلی آئی وغیرہ وغیرہ جب کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔دیہاتوں میں زیادہ مائیں یہ بھی کہتی ہیں چپ کرجائو نہیں تو باوُ آجائے گا۔

یعنی ایسی انجانی چیزکا نام جسے وہ خود بھی نہیں جانتی ،جس کا کہیں کوئی وجود تک نہیں ہوتا،مائیں اس بات سے بے خبر ہوتی ہیں کہ یہ ساری چیزیں بچوں کے شعور میں بیٹھ ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اورسکول و مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ بھی بہت کم بچوں کے شعور سے ان چیزوں کوجُدا کرپاتے ہیں۔راقم کے خیال میں پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کی تربیت اگر سچ اور مثبت حکمت عملی کے ذریعے کی جائے تو اساتذہ بھی بچوں کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے بچے کو والدین کہتے ہیں چپ کر جائو نہیں تو جن یا باوُ آجائے گا تواکثر بچے اس بات سے خوفزدہ رہنے لگتے اور اپنے ہی گھر میں ڈرتے رہتے ہیں ،اگر رات کے وقت بجلی بند ہونے کی وجہ سے اندھرا ہوجائے تو بچے بری طرح ڈرکر زور زور سے رونے لگتے ہیں، اس ڈر کو ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی بچوں کے دل سے نہیں نکال سکتے۔غور کریں ہماری چھوٹی سی غلطی ہمارے بچوں کو ساری زندگی کے لیے خوفزدہ کردیتی ہے۔ ایسا جھوٹ بول کر روتے ہوئے بچوں کو چپ کروانے سے بہتر نہیں کہ انہیں تھوڑی دیر کے لیے روتا چھوڑ دیا جائے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03154174470