یوکرین میں فوجی مداخلت خارج از امکان: جرمنی اور نیٹو کا موقف

 Jens Stoltenberg and Olaf Scholz

Jens Stoltenberg and Olaf Scholz

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر اولاف شولس نے واضح کر دیا ہے کہ نیٹو کی طرف سے یوکرینی تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ساتھ ہی نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کا ہدف اس مسلح تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔

وفاقی جرمن چانسلر شولس اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ اسٹولٹن برگ کی سترہ مارچ جمعرات کے روز برلن میں ہونے والی ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب یورپی یونین کی اگلی سربراہی کانفرنس بس ہونے ہی والی ہے۔ اس ملاقات سے کچھ دیر قبل جمعرات ہی کے روز یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف سے ویڈیو رابطے کے ذریعے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے ارکان سے خطاب بھی کیا تھا۔
چانسلر شولس کے دو ٹوک الفاظ

باہمی ملاقات کے بعد شولس اور اسٹولٹن برگ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس کی ابتدا میں جرمن سربراہ حکومت نے صدر زیلنسکی کے بنڈس ٹاگ سے خطاب اور ان کے ‘متاثر کن الفاظ‘ پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن ساتھ ہی چانسلر شولس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ نیٹو اتحاد یوکرین میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔

جرمن سربراہ حکومت نے کہا، ”ایک بات بالکل واضح کر دی جانا چاہیے: مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اس جنگ میں فوجی سطح پر کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔‘‘

جرمن چانسلر کے انہی الفاظ کا اعادہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے بھی اپنے بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو نے اگر یوکرین کے تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت کی، تو اس تنازعے کے مزید پھیل جانے کا امکان اور زیادہ ہو جائے گا۔ نیٹو کے سربراہ نے کہا کہ اس جنگ میں اس عسکری اتحاد کا کردار تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔

ژینس اسٹولٹن برگ نے جرمن چانسلر کی موجودگی میں کہا، ”نیٹو کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس تنازعے کو اور بھی شدید تر ہو جانے سے روکے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ بحران خطرناک تر ہو جائے گا اور اس سے انسانی مصائب، ہلاکتیں اور تباہی سب کچھ کہیں زیادہ ہو جائے گا۔‘‘

یوکرین پر روس کی طرف سے فوجی چڑھائی کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ اب اپنے چوتھے ہفتے میں ہے۔ اس عرصے کے دوران یوکرین کی طرف سے یورپ اور نیٹو سے بار بار مدد کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر اہم یہ درخواست بھی تھی کہ نیٹو یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے کر ان حدود کی حفاظت بھی کرے۔

اس سلسلے میں یوکرین میں نو فلائی زون کے قیام سے متعلق لیتھوانیا کی پارلیمان نے تو متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کر لی تھی۔ اسی مجوزہ ممنوعہ فضائی علاقے کے قیام کے کییف کے مطالبے کی ایسٹونیا اور سلووینیا جیسے ممالک نے بھی کھل کر حمایت کی تھی۔ تاہم اس بارے میں نیٹو اور یورپی یونین کے رکن اکثر ممالک کا موقف یہ تھا کہ یوکرین کی فضائی حدود میں ایسے کسی نو فلائی زون کا قیام اس جنگ میں فوجی سطح پر عملی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔

نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے دائرہ کار میں جرمنی کے کردار کو بھی سراہا۔ اسٹولٹن برگ نے کہا، ”یورپ کے وسط میں واقع جرمنی بحر اوقیانوس کے آر پار کے تعلقات میں دل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ نیٹو کے سربراہ کے مطابق روس اور یورپ کے مابین موجودہ بحران میں بھی جرمنی اور جرمن قیادت کا کردار ناگزیر اہمیت کا حامل ہے۔

ژینس اسٹولٹن برگ کے مطابق، ”جرمنی نے اب تک عسکری، انسانی بنیادوں پر امداد اور سیاسی حمایت کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کی ہے، وہ قابل تعریف ہے اور ساتھ ہی برلن حکومت کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے کہ اس نے یوکرینی مہاجرین کی بڑی تعداد کو بھی ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔‘‘