نہ شہری، نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کام کر رہی ہے: چیف جسٹس

Justice Gulzar Ahmed

Justice Gulzar Ahmed

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ نہ شہری حکومت کام کررہی ہے نہ وفاقی اور صوبائی حکومت کام کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شہر سے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل، چیف سیکریٹری، کمشنر کراچی اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر دہلی کالونی اور پنجاب کالونی میں تجاوزات کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ان علاقوں میں تعمیرات کیسے ہو رہی ہیں، یہ بتائیں، یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نے دی؟ اس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ ہم نے ایکشن لیا ہے، کارروائی کررہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آپ قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟ ہم قانون بنائیں کیا؟ ہم کوئی کمیٹی یا کمیشن نہیں بنائیں گے آپ قانون پر عمل کریں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو صرف وائٹ واش نظر آئے گا، اگر کچھ ہوسکتا ہے تو صرف آپ کرسکتے ہیں آپ ہی درست کرسکتےہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کراچی کروڑوں لوگوں کا شہر ہے، ہم نہیں چاہتے کوئی ایسی بات کہہ دیں جس سے نقصان ہو، کوئی امید افزا بات نظر نہیں آرہی۔

عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ملٹی اسٹوریز عمارتوں کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ یہ دہلی کالونی وغیرہ تو 1950کی بنی ہوئی ہیں آپ نئے قوانین بتارہے ہیں، گراونڈ پلس ون کی اجازت دی جاسکتی ہے اور اتنی اونچی اونچی عمارتیں کیسے بن گئیں؟ سارے کھلے میدان تک ختم کردیے، علاقے میں پورشنز کی بھرمار ہے۔

عدالت نے سرکاری کوارٹرز میں قائم تمام غیر قانونی تعمیرات فوری گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کوارٹرز کی جگہ خالی کراکے وفاقی حکومت کے ملازمین کو ہی دی جائے۔

سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ خزانے بھر لئے اور کہتے ہیں غیرقانونی تعمیرات ہیں، اس وقت آنکھیں بند تھیں جب پیسے بٹور رہے تھے۔

عدالت نے گزری روڈ، پی این ٹی کالونی، پنجاب کالونی اور دہلی کالونی میں غیرقانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 9،9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کو گرائیں، اس قدر برا حال ہوگیا ہے آپ لوگ آنکھیں بند کرکے چلتے ہیں؟ آپ لوگوں پر اعتبار کرکے سرکاری زمینیں سپرد کی گئی تھیں، آپ لوگوں نے اس ٹرسٹ کے ساتھ کیا کیا؟

جسٹس گلزار احمد کاکہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کی کہانی بھی ہمیں معلوم ہے، جائزہ لیں تو سارا غیر قانونی نکلے گا، ساری لیزیں فارغ ہوجائیں گی، میں بھی فارغ ہوجاؤں گا، فارغ ہوجائوں تو کوئی بات نہیں مگر ہمیں قانون پر چلنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر روڈ والوں کو کہیں اور لے جائیں حکومت اپنی زمین خالی کرائے، اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ مجھے وقت دے دیں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کوئی حل نکالیں گے۔

معزز چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں ریمارکس دیے کہ نہ شہری حکومت کام کررہی ہے نہ وفاقی اور صوبائی حکومت کام کررہی ہے، کوئی حکومت کام نہیں کررہی کیا کریں کسے بلائیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ عزم نہیں، آپ کام کرنا ہی نہیں چاہتے۔

عدالت نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ تجاوزات کا مکمل خاتمہ، کچی آبادیوں کی ری سیٹلمنٹ اور متاثرین کی آبادکاری پرسفارشات دیں، میڈیا کے ذریعے بھی متعلقہ ماہرین سے سفارشات لیں۔

عدالت نے نہر خیام پر بھی سبزہ پارک بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ نہر خیام پر کمرشل تعمیرات کی اجازت نہیں ہوگی۔

بعد ازاں عدالت نے تمام مقدمات کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی جب کہ کراچی بے امن کیس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردیا گیا۔