سادہ دلانِ شہر جاگو

Gujranwala

Gujranwala

تحریر: شاہ بانو میر
جناح اسٹیڈیم میں عمران خان نے پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیل کر اس شہر کو بین الوقوامی پہچان دی تھی ٬ اس وقت مجھ سمیت سارا شہر اُمڈا پڑا تھا عمران خان کو دیکھنے کے لئے٬ تاریخی دن تھا ہمارے شہر کی خاموش تاریخ کا آج پھر وہی عظیم تاریخی شخصیت آنا چاہ رہی ہے تو ہاتھوں میں سنگ ؟؟؟ افسوس کہ آج اسی عمران خان کو مخصوص سیاسی چھوٹی سوچ کا نشانہ بنا کر ان کی آمد پر عجیب و غریب قسم کی پومی بٹ سیاست کا ڈرامہ رچانے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں٬ وہ بھی گوجرانوالہ میرے غیّور پہلوانوں کے شہر میں؟ یقین نہیں آتا ہمیشہ کا مہمان نواز شگفتہ مزاج لوگوں کا یہ سادہ شہر کسی سیاسی چالبازی کا شکار کر کے روّیے ایسے جابرانہ بنا دیے گیے؟ گوجرانوالہ کو کبھی بدلتے نہیں دیکھا ٬ یہاں سازشی لوگ نہیں ہیں اِکّا دُکّا کوئی ہو تو ہو ورنہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ذاتی ترقی پے توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں٬ صنعت سازی میں کبھی گہما گہمی دیکھنے کو ملتی تھی اب قدرے مایوسی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کاروباری حضرات عجیب سی گومگو کیفیت کا شکار ہیں٬۔

اس شہر میں ہم نے گوشت کی افراط دیکھی لوگ خوش خوراک ہیں چڑِے بٹیر ٬ حلیم نہاری کھیر سبز چائے گاجر سے لے کر دال کے حلوے تک لذّت ایسی کہ انسان انگلیاں چاٹ جائۓ٬ کہیں مزیدار روایتی فالودہ ہے تو کہیں فروٹ چاٹ کے ساتھ لذیذ دہی بڑے جلوہ دکھاتے ہیں کہ راہگیر کھائے بغیر قدم آگے بڑھا نہیں سکتا٬ 20 سال پہلے تک ایک آدھ اعلیٰ معیاری درسگاہ کے سوا یہاں کوئی ایسا معیاری تعلیمی ادارہ نہیں تھا ٬ جو ذہنوں کی سادگی کو جدت پسندی کی طرف راغب کرتا ٬ یہی وہ ہے کہ عرصہ دراز تک ہم جیسے لوگ ہوٹلنگ کے لئے لاہور جاتے٬ لیکن 20 سال سے یہاں ایسے تعلیمی ادارے معرضِ وجود میں آگئے کہ جنہوں نے نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان وہی فرق واضح کر دیا جو یورپ کی پہچان ہے٬ گھروں کے پرانے لوگ اپنے پُرانے طریقوں کے ساتھ مضبوطی سے اپنی جگہہ جمے ہوئے ہیں جبکہ وہیں اُسی گھر میں اب نئی نسل خصوصا بچیاں یورپین طرزِ معاشرت کا شکار نظر آتی ہیں ٬ سادہ ملبوسات اب بوتیک ار دیگر شاپنگ مال کھلنے کے بعد اب جدید انداز میں نظر آتے ہیں٬ سیخ کباب چپل کباب سجّی تکہ بوٹی مچھلی کی خوشبو اڑاتی وہ دوکانیں اب جدید انداز کے فاسٹ فوڈ میں تبدیل ہو گئی ہیں٬ فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر زورو شور سے جاری ہے٬ گفٹ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی ادارے گوجرانوالہ کے ماتھے کا جھومر بن کر چمک رہے ہیں٬۔

Imran Khan

Imran Khan

اب آپ وہاں اگر ایک طرف مخصوص سوچ رکھنے والے پرانے لوگوں کو پرانے اندرونِ شہر بازار میں مُختلف ٹھیلوں سے سبزیاں خریدتے دیکھتے ہیں تو اس سے زیادہ تعداد میں نئی نسل کو نئے انداز میں از سر نو قائم کی گئی بیکریز آئس کریم پارلرز اور پِزا شاپ سے شاپرز پکڑے یا یا وہیں بیٹھے کھاتے پیتے دیکھ سکتے ہیں٬ شہر کی روایتی بدنمائی اس کے ڈھیروں کے حساب سے گلیوں میں سڑکوں پے پڑے کوڑے کے انبار اب دکھائی نہیں دیتے ٬ جو یقینی طور پے ذہنی ترقی کی علامت ہے٬ جا بجا سبزہ اور سڑکوں کی بہتر صورتحال اب شہر والوں کو کچھ سال بعد پردیس سے جانے کے بعد اجنبی ثابت کرتی ہے٬ مثبت سِمت میں رواں دواں یہ شہر کبھی خواتین کے لئے دقیانوس شہر تھا ٬ لیکن اب عصرِ حاضر کے تقاضوں کے تحت گھر گھر خواتین اپنی تعلیمی صلاحیتوں کے ساتھ عملی طور پے آپکو ہر جگہہ متحرّک دکھائی دیتی ہیں ٬ جو خوش آئیند ہے٬ لیکن اتنی تبدیلی کے بعد بھی اس معصوم شہر میں تبدیلی نہیں آئی ابھی تک وہی روایتی ہٹ دھرمی اور وہی پُرانی سوچ کچھ اداروں پر حاوی ہے ٬خاص طور سے سیاست کے شعبے میں برادری سسٹم پے مبنی سوچ کہ یہاں تو اتنے سال سے فلاں کے ساتھ چل رہے ہیں اب کیسے بدل لیں اپنی سوچ٬ وہ پُرانا شہردار ہے لحاظ تو رکھنا ہے٬ یہ ہے عام درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے عام انسان کی سوچ ٬ اس شہر کی ساری تعلیمی کاوشیں اس وقت تہہ خاک جا سوتی ہیں جب اتنے صحافتی طور پے متحرک شہر میں صحافت بھی سر نگوں کیے اکثریت کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہے٬۔

ہم گوجرانوالہ کے لوگ ایسے ہی ہیں جم کے رہنےوالے اور اپنے موقف پے ڈٹ کے رہنے والے بار بار نظریہ اور سوچ نہیں بدلتے ٬ لیکن کبھی کبھار بہتری کے لیے لکیر کو مٹا کر خود کو فقیری سے امیری کی طرف لانا سمجھداری کے ساتھ خلقِ خُدا پے احسان ہوتا ہے اور یہ وہی وقت ہے جب عمران خان کا ساتھ بھلائی کا ساتھ ہے٬ جسے میرا سادہ شہر اور اسکے سادہ مکین سمجھنے کو تیّار نہیں٬ اُسی روایتی سوچ سادگی کی وجہ سے٬ ہمیشہ سے اپنا شہر بہت اچھّا لگتا ہے میرا اثاثہ ہے وہاں کا ہر ہر منظر اپنے سادہ دِلانِ شہر سے کہنا ہے ٬ کہ وہاں مسّلط سیاسی اجارہ داری کو اب خود پر سے اتار کر پرے پھینکو٬ نئی صبح امید سامنے کھڑی ہے ٬ اس کا ساتھ دو٬ زندگی!!! صبح بھاری بھرکم ناشتے اور دوپہر کو تھیلا اٹھائے گوشت سبزی لانے کا عنوان نہیں٬ اب زندگی کی ترجیحات بدل چکی ہیں٬ محض اس لئے کسی ایک کو ہمدردی کا ووٹ کا حقدار سمجھو کہ وہ شہر دار ہے اور اپنی کشمیری برادری سے تعلق رکھتا ہے؟ نکل آؤ اس ذات برادری سے باہر ٬ ایک قوم بننے کا وقت آگیا وہی قوم جس کو بابائے قوم نے رنگ نسل ذات پات سے اوپر اٹھا دیا تھا٬ اور نقشے کو تبدیل کر کے بنایا تھا۔

پاکستان جاگو اٹھو نکلو گوجرانوالہ میرے شہر تیری تو محبت چاشنی مہمان نوازی ضرب المثل تھی؟ یہ کیسی تلخ سوچ کی لہر اس شہر کے سادہ ماحول کو زہر آلود کر گئی کہ لہجے میں نفرت کی کاٹ اور ہاتھوں میں سنگ باری کے لئے پتھر؟ نہیں آپ اپنے تشخّص کو شہر کے تمدن کو یوں روند کر کچھ ہاتھوں میں نہیں کھیل سکتے٬۔ آپ نے ایک، بار ایسا کیا لیکن خُدارا دوسری بار خود کو منفی انداز میں پیش نہ کریں٬ کل بھی عمران کی آمد کرکٹ کے حوالے سے اس شہر کے لئے شہرت نیک نامی اور عزت کا باعث بنی تھی٬ انشاءاللہ اب دوسری بار بھی وہ اسی اسٹیڈیم میں آئے گا اور اس شہر کے لئے نئی سوچ نئی تبدیلی اور نئی کامیابی کی نوید دے کر جائے گا۔

اٹھو گوجرانوالہ اور نکلو اس ملک کی اس شہر کی تقدیر بدلنے چلو چلو جناح اسٹیڈیم چلو ہم مُلک بچانے نکلے ہیں اٹھو گوجرانوالہ آؤ ہمارے ساتھ چلو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر