ضمیر کی آواز

Munawar Hussain

Munawar Hussain

ہاں تو میں اپنے پچھلے کالم میں ذکر کر رہا تھا جو ہوٹل پر بیٹھا میں چائے پیتے ہوئے سن رہا تھا کہ منور حسین کے ساتھ بہت زیاتی ہوئی وہ کہ رہ تھے کہ آج بھی وہ انسان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے مگر اتنا عرصہ ہو گیا ہے اس غریب کو انصاف نہیں ملا۔ پہلا بولا اللہ کرئے گا اس کو ضرور انصاف ملے گا۔ پنجابی کا ایک محاورا ہے کہ غریبا بیلی اللہ جس کا کوئی نہیں اس کا رب تو ہے او نام کے مسلمان تو اپنے بھائی کا حق کھا رہا ہے۔ اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو چکا ہے کبھی وہ کسی کو درخواست دئے رہا ہے کبھی کسی تاریخ پر جا رہا۔ افسوس صد افسوس کہ اس غریب کو ابھی تک کسی سے انصاف نہیں ملا مگر اس غریب کو دیکھو کہ اس کو اب بھی امید ہے کہ کو نیک دل مسیحا آئے گا اورمجھ کو وہ انصاف ضرور دیئے گا۔

ایک اور آواز آئی کہ وہ وقت نہ جانے کب آئے گا اور بولا کہ بھائی اگر جو اس کو انصاف دیئے اور اتنا کر دیئے کہ اس غلام عباس نامی سپریڈینٹ نے جائیداد کوٹھی کار وغیرہ کہا سے بنائے تو سارا کچھ اس کے سامنے آجائے گا۔ بار حال یہ اور با ت ہے سپریڈینٹ جانے اور اس کے کام افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا اپنی مرضی سے آفس آتا ہے اپنی مرضی سے چلا جاتا ہے کوئی نیک فرض شناش افسر اس کو کوئی کام کہا دیئے تو ماصوف ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ ساتھ ہی پہلی آواز آئی اللہ کرئے منور کو اس کا انصاف مل جائے اور اس غلام عباس کی تمام جایئداد کا پتہ کروایا جائے تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ ابھی وہ لوگ بیٹھے باتوں میں مصروف تھے مجھے تو مسافر لگ رہئے تھے خیرمیں نے چائے کا بل دیئے کر باہر آ گیا۔

Hospitals

Hospitals

سوچ میں ڈوب گیا کہ اتنا ظلم کہ عرصہ دراز سے غلام عباس اس سیٹ پر بیٹھا ہے اس کو کسی نے نہیں پوچھا اسی سوچ میں اپنے آفس پہنچ گیا اور کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ میرئے پاس میرا دوست آیا بولا بھائی آپ کو معلوم ہے کہ انتظامیاں جھنگ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے کہ آپ جس کسی بھی گلی محلے میں جائوں وہاں پر آپ کو عطائی ڈاکٹروں ولیڈی ڈاکٹروں کی بھر مار نظر آئے گی۔ مگر افسوس تو اس بات کا کہ ان عطائی ڈاکٹروں کو کسی چیز کا نہیں پتہ اور یہ اپنے کلینکوں ہسپتالوں کے باہر ایم بی بی ایس ڈاکٹروں، لیڈی ڈاکٹروں کے بڑے بڑے بورڈ لگا کر غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کر رہے ہے منڈی شاہ جیونہ میں ایک عطائی ڈاکٹر ظفر نامی شخص چلڈرن شپشلیسٹ ڈاکٹر بن کر غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہے جس کی کئی بار اطلاع ڈرگ انسپکٹر کو دی گئی جو نہ جانے کس مصلحت کے تحت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے وہ لوگ بھی تو محکمہ ہیلتھ کے ہے جن کے بورڈ عطائی ڈاکٹروں نے اپنے کلینکوں کے باہر لگا رکھے ہیں شنید تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی افسر وزٹ کے لیئے نکلتا ہے تو ساتھ ہی محکمہ کے ہی لوگ ہے ان کو فون کر دیئے گے کہ بھا ئی آج نکل جائو ہم وزٹ کے لیے نکل رہے ہیں۔

او نام کے مسلمان تم کو کیا معلوم تیرا باپ، تیرا بیٹا۔ بیٹی۔ بیوی۔ ماں۔ یا تیرا کوئی قریبی رشتے دار ان کے ہاتھوں مر جائے یا خدا کرئے اس کو انہی سے کو موذی امراض میں مبتلا کر دیئے تو توجے پتہ چلے۔ ڈر اس خدا سے جسے کے پاس لوٹ کر جانا ہے او۔ تیری نماز کس کام کی اونام کے مسلمان تیرا روزہ زکوة۔ حج کسی کا م نہیں آئے گئی قبر میں تو ہو گا اور تیرے امال اس وقت نہ ہی تیری اولاد کام آئے گئی نہ تیری بیوی نہ تیرا ماں باپ نہ ہی تیرا کو عزیز اوقارب۔ آج تو چند روپوں کی خاطر ان عطائی ڈاکٹروں کا ساتھ دیئے رہا ہے۔ اسے ظلم عطائی ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹر زہے جو ایک ہی سرنج کو نہ جانے کتنی دفعہ اوستعمال کرتے ہیں اندر ان کے گندگی کے امبار ہو گے ان لوگوں نے جو آپریشن تھیٹر بنا رکھے ہیں ان کی حالت ایک ذیبح خانے سے کم نہیں وارڈ نمبر ٥ محلہ گلاب والا، ریلوئے اسٹیشن جھنگ شہر بستی ملاح والی۔

سرگودھا روڈ۔ اڈاچنڈ۔ شاہ جیونہ۔ رتہ متہ۔ مسن۔ پیرکوٹ۔ منڈی شاہ جیونہ۔ فیصل آباد روڈ۔ گوجرہ موڑ۔ اڈا شبیر آباد۔ وغیر جگہ جگہ جہاں بھی آپ کی نظر جائے گئی آپ کو عطائی ہی عطائی نظر آئے گئے۔ مگر افسوس تو اس بات کا کہ آج ہم صرف نام کے مسلمان رہئے گئے ہے اگر محکمہ ہیلتھ آج اپنا قبلا درست کر لیئے آپ کو کسی جگہ کوئی عطائی نظر نہیں آیئے گا۔

آج اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ اپنا کلینک یا ہسپتال بنا کر بیٹھ جاتا ہے او مسلمانوں اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کا خیال کرئو یہ نہ کہ تم ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کر دو۔ یا اللہ ان کے دلوں میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لیے رحم پا۔ اسے افسران کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے جو عطائیت کو جنم دیئے رہے ہیں اور تمام عطائیوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے کہ بعد میں کسی کو دوبارہ کلینک یا ہسپتال بنانے کی جرات نہ ہو۔ اور جو محکمہ ہیلتھ جھنگ کے افسران بیٹھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہئے ہے۔ ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے اور ان افسران کو فی الفوار تبادلے کیے جا ئے جن میں سرفہرست ڈرگ انسپکٹر ہے اس کا فی الفور تبادلہ کیا جا ئے۔ اس کی جگہ کسی نیک اور ایماندار شخص کو لایا جائے۔ جو غریب دوست ہو۔

Shafqat Ullah Khan Siyal

Shafqat Ullah Khan Siyal

تحریر : شفقت اللہ خان سیال