علم نیکی ہے

Knowledge

Knowledge

دنیا کے ایک عظیم استاد سقراط کے بقول علم نیکی ہے اور جہالت برائیوں کی جڑ ہے۔ علم انسان کو اچھے برے میں فرق کرنا سیکھتا ہے۔ علم ہی انسان میں ادب، رہن سہن اور بہتر زندگی بسر کرنے کے طور طریقے سیکھتا ہے۔ بیشک بغیر علم کہ انسان و حیوان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ علم کی بدولت ہی انسان صاف ستھرا لباس پہننا، اچھا کھانا کھانا، زبان میں نرمی لانا، لوگوں سے تعلقات قائم کرنا، اچھے رشتے بنانا سیکھتا ہے اور حیوان کو اپنے تابع کرنے کے تعریقے بھی اور دوسرے انسانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی۔ جبکہ علم سے محروم طبقہ جرائم ونشہ کی دنیا میں اپنی کامیابی تلاش کرتے نظر آتے ہیں، رشتہ داروں و والدین سے لڑائی جھگڑا کرتے اور معاشرہ میں بدامنی پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ سقراط کو علم سے اتنا پیار تھا کہ وہ چوکوں، چوراہوں، گلی و محلوں، میدانوں، سڑکوں وغیرہ جہاں جگہ ملتی اپنے لیکچر دینا شروع کر دیتا اور یونان کے باشندوں میں علم کی شمع پیدا کرتا۔

سقراط کی کوششوں کو یونا ن کی حکومت نے انعام کے طور پرسزائے موت سے نوازہ۔ مگر سقراط کے مشن کو اس کے شاگرد خاص افلاطون نے آگئے بڑھایا۔ اور 387 قبل مسیح میں باقاعدہ اکادمی کا آغاز کیا، جیسے آجکل اکیڈمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ افلاطون اپنی اکادمی میں شاگردوں کو باقاعدگی سے تعلیم دیتا۔ اس نے ریاضی و سائنس پر بیشتر لیکچر دیے، جن میں سے بیشتر ضائع بھی ہو گئے اور کچھ اس کی کتاب Republican میں موجود ہیں۔ افلاطون کی محنت سے دنیا کا عظیم سائنس دان، مفکر، سیاست دان، فلاسفر، تاریخ دان، معیشت دان ارسطو نے جنم لیا۔ شاید ہی دنیا میں ایسا کوئی مضمون ہو جس میں ارسطو کا ذکر نہ آتا ہو۔ اگر سقراط اپنے علم کی شمع روشن رکھنے کیلئے اپنے شاگرد پیدا نہ کرتا تو آج دنیا کا کوئی انسان سقراط سے واقف نہ ہوتا۔ سقراط کی محنت ولگن سے افلاطون پیدا ہو اور افلاطون سے دنیا کا عظیم ترین سائنسدان ارسطو، بیشک آج ارسطو کی بدولت ہی اس کے استاد اور دادا استاد کا نام زندہ ہے۔

Gujranwala Board

Gujranwala Board

اس دور میں کتنے امیرخاندان ہونگے جنہوں نے محل بھی تعمیر کیے مگر آج ان کو کو ئی نہیں جانتا۔ یعنی دولت ختم ہو جاتی ہے علم ختم نہیں ہوتا۔ 17 نومبر 1965 کو یونیسکو نے اعلان کیا کہ تعلیم کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اور خواندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے ہر سال 08 ستمبر کو عالمی خواندگی کا دن منایا جائے گا۔ اور 1966 سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔عوامی رائے کے سروے کے مطابق ہر5 میں سے ایک بچہ سکول نہیں جاتا اور ان میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ تقریبا آج بھی دنیا کے 60.7 ملین بچے سکول میں داخل نہیں۔ قارئین آجکل پرائیویٹ سکولوں، کالجوں، سرکاری اداروں کے ٹیچروں نے اپنی پرائیویٹ اکیڈمی میں Education For Sale کا بورڈ لگایا ہوا ہے۔ اور ہر ٹیچر کے اپنے ریٹ ہے کوئی 500 لیتا ہے تو کوئی 1000 تو کوئی 10000 بھی لیتا ہے،مگر ایسے استاد معاشرہ میں اپنا مقام ایک مزدور۔ مستری۔ کباڑیہ سے زیادہ نہیں رکھتے۔

کیونکہ یہ لوگ غریب و محنتی طالب علموں کے مستقبل کو تباہ کر کے امیر لوگوں کو آگئے لاتے ہیں۔ مگر قارئین اس نفسانفسی کے دور میں بھی کچھ ایماندار۔ فرض شناش۔ محنتی اور سقراط کے فلسفے پر چلنے والے استاد موجود ہیں۔ جی ہاں۔ ابھی بھی تعلیم کی شمع پاکستان میں کچھ استاد روشن کیے ہوئے ہیں۔ اور طالب علموں کے اندر موجود ہنر کو تلاش کرکے اسے ہیرے کا روپ دیکر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ 24 اگست 2013 کا اختتام ہورہا تھا، حمزہ لوہے کی پھٹی پر کام کرکے واپس گھر آیا تو گھر کے ٹیلی فون پر ایک کال آئی جس میں کہا گیا کہ کل 10 بجے اپنے چھوٹے بھائی علی رحمت اﷲ کو گوجرانوالہ بورڈ بھیج دینا اس نے آرٹس گروپ میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی ہے۔ مگر حمزہ نے یہ سب کچھ مزاق سمجھا۔ کیونکہ اس کے نزدیک تو پوزیشن صرف اور صرف امیر گھرانوں کی ملکیت ہوتی ہے۔ علی رحمت نے بھی مذاق سمجھتے ہوئے کال کو رد کردیا اور زندگی کے غموں میں مگن ہو گیا۔

مگر گورنمنٹ ہائی سکول کے پرنسپل اور کلاس ٹیچر وحید اشرف کو جب اخبارات اور میڈیا سے معلوم ہوا تو وہ علی رحمت کو بغیر استری کپڑوں میں گوجرانوالہ بورڈ کے ہال میں لیکر چلے گئے۔ وہاں ہمارے نمائندگان پینٹ کوٹ اور پرفیوم کے ساتھ مہمان گرامی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ علی رحمت شروع سے ایک کامیاب طالب علم تھا مگر کوئی استاد اس کے اندر موجود ٹیلنٹ کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا، علی نے مڈل میں 456/800 نمبر حاصل کیے مگر یہی علی میٹرک میں 929/1050 نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ قارئین اگر علی رحمت اﷲ کا ٹیچر وحید اشرف بھی دیگر ساتھیوں کی طرح صرف امیر گھرانوں کے بچوں کی طرف توجہ دیتا اور علی رحمت اﷲ کو ایک غریب طالب علم سمجھتے ہوئے، اس کے اندر موجود ٹیلنٹ کو ضائع کردیتا تو ممکن ہے۔

وہ چند ہزار کی آمدنی تو کر لیتا مگر وہ اس کامیابی سے محروم ہو جاتا جو علی رحمت اﷲ کی وجہ سے اسے پورے پنجاب میں ملی۔ بیشک ایماندار انسان کو اﷲ دینا اور آخرت میں بھی کامیابی دیتا ہے اور لالچی۔ مفادپرست۔ کرپٹ افراد دنیا و آخرت میں بدنام ہوتے ہیں۔ میری حکومت وقت و اپوزیشن کی جماعتوں سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی پاکستان سے ٹیوشن سسٹم کے خاتمہ کیلئے اقدامات کرئے۔ تاکہ غریب کا بچہ بھی تعلیم حاصل کر سکئے۔ اگر ممکن ہوتو حکومت وقت آج سے ہی سرکاری سکولوں میں موجود ٹیوشن سنٹر کا خاتمہ یقینی بنائے، جو چھٹی سے کچھ دیر بعد open ہوتے ہیں یا سکول لگنے سے قبل۔

Zeeshan Ansari

Zeeshan Ansari

تحریر : ذیشان انصاری
0313-6462677