گُڈ بائے زرداری

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

زرداری سے پہلے دس افراد صدر پاکستان کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔ آصف علی زرداری پاکستان کے گیارہویں صدر ہیں۔پاکستان میں سویلین لوگوں کی نسبت فوجی جرنیلوں نے زیادہ حکمرانی کی ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف فوجی حکمران تھے جو تقریباً بتیس سال سے زائد اقتدار پر قابض رہے۔ پاکستان کے گیارہویں اور موجودہ صدر آصف علی زرداری اپنی معیاد پوری کرکے الوداع ہو رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی متنازعہ سیات اور کرپشن میں مشہور رہی ہے۔

آصف علی زرداری ایک بلوچ سیاستدان اور بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھی حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔ آصف زرداری 1954 میں پیدا ہوئے۔ انکے والدکازمینداری کے علاوہ سینما گھر اور کراچی میں بھی کاروبار تھا۔ آصف علی زرداری کی ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے 1974 میں انٹرمیڈیٹ کیا۔بعد میں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی کسی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا تاہم انہوں نے اپنے گریجوئیٹ ہونے کی کبھی تصدیق نہیں کی۔ آصف زرداری شروع سے ہی یاروں کے یار کے طور پراپنے حلقہ احباب میںجانے جاتے تھے۔ 1968 میں کمسن آصف زرداری نے فلمساز سجاد کی اردو فلم ‘منزل دور نہیں’ میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔

سیاست سے آصف زرداری کا سن 80ء کے وسط تک دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔البتہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں آصف زرداری نے نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔ مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے۔ اسی زمانے میں آصف زرداری نے کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا لیکن اس شعبے میں آصف زرداری صرف دو ڈھائی برس ہی متحرک رہے۔

1987آصف زرداری کے لئے سب سے فیصلہ کن سال تھا جب انکی (سوتیلی )والدہ اور بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کا رشتہ طے کیا۔ 18 دسمبر 1987 کو ہونے والی یہ شادی کراچی کی یادگار تقاریب میں شمار ہوتی ہے جس میں امرا کے شانہ بشانہ ہزاروں عام لوگوں نے بھی شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو اور انکے لاکھوں سیاسی پرستاروں کے لیے یہ پہلی بڑی خوشی تھی۔

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

1988 میں جب بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو آصف زرداری بھی وزیرِ اعظم ہاؤس میں منتقل ہوگئے اور انکی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگئی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ رکنِ قومی اسمبلی بنے۔ 1993 میں وہ نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے پھر بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں رکنِ قومی اسمبلی اور وزیرِ ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔

5 نومبر 1996 کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔ آصف علی زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں، امریکہ میں ، بلجئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ اس دوران انہوں نے تقریبا دس سال قید میں کاٹے اور 2004 میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد انکو رہا کردیا گیا۔

غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات ، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی۔ آصف زرداری تقریباً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہے۔ جیل میں بھی آصف زرداری مرکزِ توجہ رہے کیونکہ انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کئے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم اور نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست بھی شامل رہا۔ دورانِ قید ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکہ، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا۔ اسکے بعد سے انکے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی یا تو ثابت نہیں ہوسکا یا واپس لے لیا گیا یا حکومت مزید پیروی سے دستبردار ہوگئی۔اس سلسلے میں اکتوبر 2007 میں متعارف کرائے گئے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈینننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ستائیس دسمبر2007 کو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے لیکن پھر انہوں نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اگست 2008ء میں الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر زرداری نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کے فعال سربراہ بھی رہے۔ بالآخر عدالت عالیہ لاہور نے زرداری کو مشورہ دیا کہ آئین کی روح کے مطابق صدر رہتے ہوئے سیاسی عہدہ رکھنا مناسب نہیں۔

زرداری پر جہاںمالی بدعنوانی کے بیشمار الزامات آئے۔ رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے مسٹر ٹن پرسینٹ کا خطاب پایا۔2008ء میں مختلف موقعوں پر پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے نواز شریف سے کھلے عام تحریری معاہدہ کرنے کے چند روز بعد مْکر جانے کے طریقہ کو یہ کہہ کر صحیح طرز عمل گردانا کہ ”معاہدے حدیث نہیں ہوتے۔ آصف علی زرداری نے صدر بنتے ہی اپنے اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا اور اپنے اوپر قائم تمام مقدمات رفتہ رفتہ ختم کرواتے چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے مقدمات ختم کروانے میںایک سابق چیف جسٹس کا بڑا کردار تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کہ ان کی حکومت افتخار چوہدری کوبحال نہیں کررہی تھی جس کے لیے نواز شریف کو لانگ مارچ کرناپڑا اور اس کی وجہ سے مجبور ہوکر حکومت کو افتخار چوہدری کو بحال کرنا پڑا۔

آصف علی زرداری کی زندگی جہاں اتنے الزامات اور خامیوںکی زد میں رہی وہاں پر ہی ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بڑی چالاکی سے اپنے دوستوں کو اپنے جا ل میں پھانس لیتے تھے۔ اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں کئی اتحادی ہونے کے باوجود ان کی سیاسی ذہانت کی وجہ سے ان کو کوئی بھی نہیں چھوڑ سکا۔ بلکہ خود ان کے مخالفین کو کہتے سنا کہ ” زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی(PHD)کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو کام انہوں نے کیا وہ کبھی کسی صدر نے نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیے۔ یہ پہلے صدر ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات وزیراعظم کو دیے ورنہ یہاں تو ایسی مثال ملتی ہیں کہ جن کو پارٹی نے صدر پاکستان بنایا اسی نے اپنی پارٹی کو ڈسا ہے۔ جس کی مثال غلام اسحاق اور فاروق لغاری کی ہیں۔ (بشکریہ پی ایل آئی)

 Aqeel Khan

Aqeel Khan


تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com