کرونا کے بعد

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

موجودہ دور کی سب سے خطرناک جان لیوا وبا کرونا سر زمین چین سے پھوٹنے کے بعد جنگل کی آگ کی طرح کرہ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لیتی گئی اِس ہولناک عفریت کی تباہ کاری کا یہ عالم کہ ساری دنیا میں کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ۔شروع میں لوگوں نے مذاق افواہ سمجھی لیکن جب دنیا کے چپے چپے پر لوگ اِس کا شکار ہو کر مرنے لگے تو اِس کی دہشت پوری دنیا پر بیٹھ گئی اِیسی خو فناک پر اسرار وبا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک جن کو سائنسی ترقی اور معاشی استحکام کا زعم تھا اُس کو اِس وبا نے خاک میں ملا کر رکھ دیا ‘ موجودہ دور کا انسان جو سائنسی ترقی کے غرورمیں مبتلا تھا اُس کا سارا غرور کا بخار اُتر کر رہ گیا مغربی ممالک اور دنیا کی سپر پاورز بھی بے بسی کے کے مجسمے بن کر ریت کے بتوں کی طرح زمین بوس ہونے لگے تو لادین سے لادین ممالک اور عوام بھی مذہبی عبادت گاہوں کا رُخ کر نے لگے یہ احساس ہونے لگا کہ دنیاوی سائنسی ترقی اور معاشی استحکام تو پانی کے بلبلے ثابت ہو ئے کوئی احتیاط علاج دوائی کامیاب نہ ہوئی تو دنیا بھر میں ایک ہی فارمولا سامنے آیا کہ فوری طور پر سماجی فاصلے کو اپنا کر گھروں میں خود کو قید کر لیں۔

جب لوگوں نے کرونا سے بچا ئو کے لیے خود کو گھروں میں قید کر لیا تو ترقی یافتہ ممالک نے تو اپنے عوام کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے گھروں میں راشن یا پیسے پہنچانا شروع کر دئیے لیکن غریب غیر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ خیراتی اداروں اور مخیر حضرات کی سخاوت کا انتظار کر نے لگے پاکستان میں بھی گورنمنٹ نے وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈائون لگا دیا جب لاک ڈائون دنوں سے مہینوں میں بدلہ تو ہر چیز مفلوج ہو کر رہ گئی شہر شہر گائوں گائوں کر ونا کی دہشت کے بادل منڈلانے لگے پاکستانی بھی زندگی کی بقاء کے لیے گھروں کے ہو کر رہ گئے ۔طویل لاک ڈائون کے بعد جب حالات تھوڑے نارمل ہوئے تو میں بھی باقی لوگوں کی طرح آفس جانا شروع ہوا تو ایک دن کرونا کی تباہ کاریوں کا انتہائی تکلیف دہ پہلو سامنے آیا جس نے مجھے ادھیڑ کر رکھ دیا ساتھ میں یہ بھی نظر آیا کہ کرونا کی کوکھ سے اچھائی برائی دونوں پہلو کس طرح سامنے آئے اُس دن بھی میں آفس آیا تو بہت سارے لوگ مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے۔

میں حسب معمول ملا قاتیوں سے مل رہا تھا میں کو شش کر رہا تھا کہ باری پر سب سے ملوں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اِسی دوران میری نظر ایک خوبصورت گورے چٹے جوان پر پڑی جس کو میں کافی دیر سے اِدھر اُدھر گھومتا دیکھ رہا تھا عام طور پر ملنے والے زیادہ تر بے صبرے ہو تے ہیں پھر مصروف زندگی سے تھوڑا وقت نکال کر آتے ہیں وہ جلدی ملاقات کے لیے بار بار میری طرف بڑھتے ہیں یا اشاروں سے جلدی ملاقات کا کہتے ہیں لیکن یہ جوان پچھلے تین گھنٹوں سے اِدھر اُدھر گھوم کر لوگوں کا مشاہدہ کر رہا تھا میں جب اُس کی طرف دیکھتا تو مسکرا دیتا میں جب بھی اُس کی طرف دیکھتا تو مجھے اُس کے چہرے پر آشنائی کی جھلک نظر آتی میں اپنی یادداشت پر زور دیتا لیکن آشنائی کے باوجود مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ میں نے اِس کو کہاں دیکھا یا یہ کون ہے اب میں اُس کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہو نا چاہتا تھا کہ میں نے اُس کو پہچانا نہیں اِس لیے جب بھی وہ میری نظروں کی زد میں آتا میں حافظے کے سمندر میں غوطے کھا کر ناکام واپس آکر دوسرے ملاقاتیوں میں پھر سے مصروف ہو جاتا میری مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ ایک سے دوسرا ملاقاتی فیملی میں پھراُس کوبھول کر اگلے ملاقاتی کی باتوں مسائل سوالات میں اُلجھ کر رہ جاتا اِسی طرح پانچ گھنٹے گزر گئے وہ اُسی طرح میری طرف مسکراہٹ کا نذرانہ پھینکتا میں بھی جوابا اُس کو مسکرا کر دیکھ کر مصروف ہو جاتا وہ اِس خوش فہمی میں مبتلا تھا میں نے اُس کو پہچان لیا ہے اِسی لیے میں مسکرا کر جواب دیتا ہوں آخر کار میں نے اُس کو اشارہ کیا تو وہ مسکراتا ہوا میری طرف آگیا اور بولا پروفیسر صاحب لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانانہیں ہے ساتھ ہی بولا آپ سارے لوگوں سے مل لیں میں آخر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں تو میں نے اُس کو بینچ پر ساتھ بٹھا یا اور بولا دیکھو یہ ملاقاتیوں کا رش یا آمد اِسی طرح جاری رہے گی۔

اِس لیے آپ کو میں بہت دیر سے دیکھ رہا ہو آپ آئیں ہم مل کر بات کر تے ہیں تو وہ بولا ٹھیک ہے پھر میرے کان کے قریب منہ لاکر بولا پیر صاحب آپ تو مجھے بھول ہی گئے میں ریما ہوں ریما جمال جب اُس کے منہ سے یہ نام نکلا تو میرے دماغ کی دھند لمحوں میں صاف ہوتی چلی گئی میری آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں میں حیر ت سے تقریبا ً اچھلتے ہوئے بولا نہیں ریما یہ تم ہو تمہارے لمبے بال کدھر گئے اور یہ تمہارے چہرے پر خوبصورت بڑی بڑی مونچھیں کدھر سے آگئیں اب میں غور سے اُس کے چہرے اور مونچھوں کو دیکھنے لگا تو یقین ہوا کہ یہ تو واقعی ہی ریما تھی میری حیرت کا سلسلہ جاری تھا کہ وہ بولا پیر صاحب مجھے آپ کی دعا لگ گئی میں جو پانچ سال آپ کو انکار کر تا رہا اپنی ضد اور فحش حرکتوں پر قائم رہا آخر کار میں نے فحاشی کی دلدل کو خیر آباد کہہ دیا۔ میں بدل گیا اب میرا برائی کی دنیا سے بلکل بھی تعلق نہیں ہے آپ مجھے بار بار برائی گناہ سے روکتے تھے میں آپ کی بات نہیں مانتا تھا لیکن کرونا نے میری اور میرے ساتھیوں کی زندگی میں انقلاب برباد کر دیا۔

میں نے گناہ والی زندگی چھوڑ کر نا رمل نیک زندگی گزارنی شروع کر دی میں انتظار میں تھا کہ کب آپ لوگوں سے ملنا شروع کریں تو آکر آپ کو خوشخبری سنائوں کیونکہ جانوروں کی اِس دنیا میں آپ ہی واحد تھے جو مجھے سمجھاتے تھے روکتے تھے وہ بہت ساری باتیں کر رہا تھا اور میں ریما کے جمال بننے کے سفر پر خدا کی قدرت اور کر شمہ سازی پر حیران تھا کہ کس طرح شر سے خیر کے رنگ نمودار ہو تے ہیں مجھے ریما جمال سے پہلی ملاقات یاد آگئی پانچ سال پہلے میں ملتان کے بہت بڑے زمیندار کے گھر گیا تو وہاں پر حیران کن منظر میرا منتظر تھا کہ گھر میں خواتین یا مردوں کی بجائے ملازم ہیجڑے رکھے تھے وہاں پر ریما جب پہلی بار چائے لے کر میرے پاس آئی تو زنانہ کپڑوں میں ملبوس سر پر دوپٹہ لیکن بولنے پر پتہ چلا یہ تو مردانہ آواز ہے تو پتہ چلا یہ تو ہیجڑا ہے زمیندار صاحب نے مغلیہ دور کی یاد تازہ کی ہوئی تھی کہ گھر کی خواتین کے پاس مردوں کا داخلہ بند تھا مردوں کی جگہ مخنث ہیجڑے رکھے ہوئے تھے وہاں پر جب ریما کو پتہ چلا کہ میں روحانی پیر ہوں تو اِس کو جیسے ہی موقع ملا مُجھ سے میرا نمبر لے لیا اور کہا پیر صاحب مجھے بہت ضروری کام ہے اِس لیے میں آپ کو فون کروں گی میں جب سے میری زندگی میں باجی مورت آئی ہے ہیجڑوں سے پیار کر تا ہوں اِن کو خدا کی مخلوق سمجھ کر پیار و محبت کا سلوک کرتا ہوں تاکہ اِن کو صراط مستقیم پر لا سکوں اِسی لیے میں ریما سے بھی اچھے طریقے سے ملا یہ میری ریما سے پہلی ملاقات تھی۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org