کرونا ہائی الرٹ

Hospital

Hospital

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

رات کا آخری پہر سٹارٹ ہو گیا تھا دو بجے کے بعد ہم لاہور کے پانچویں بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں داخل ہو ئے تو داخل ہو تے ہی سیکورٹی گارڈوں کو جب پتہ چلا گاڑی میں کھانسی بخار کا مریض ہے انہوں نے پہلے سے انتظامیہ کی طرف سے دئیے گئے آرڈر پر نو کا اشارہ کیا کہ ہسپتال بھر چکا ہے یہاں پر کھانسی بخار کے مریضوں کا داخلہ بند ہے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر مریضہ کی حالت بہت خراب تھی وہ پچھلے دس دن سے بخار کھانسی اور سینے کے درد ، پھیپھڑوں کی شدید انفیکشن کا شکار تھی ایکسرے رپورٹ کے مطابق مریضہ کے تقریباً سارے پھیپھڑے گل چکے تھے جو بھی ایکسرے دیکھتا ایک ہی بات کر تا آپ کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے فوری طور پر وینٹی لیٹر پر شفٹ کریں مریضہ مسلسل جاگ رہی تھی جیسے ہی سونے کی کوشش کرتی کھانسی آتی اٹھ کر بیٹھ جاتی ساتھ ہی پسلیوں میں شدید درد کی لہریں اٹھنا شروع ہو جاتی اور پھر مریضہ منہ کھو ل کر زیادہ سے زیادہ آکسیجن اپنے پھیپھڑے میں پہنچانے کی کو شش کرتی لیکن شدید انفیکشن کی وجہ سے پھیپھڑے اکسیجن کی آمد و رفت کی ڈیوٹی احسن طریقے سے ادا کر نے سے قاصر تھے چہرے پر رنگ کبھی سیاہ کبھی پیلا آنے لگتا اور وہ بار بار لڑکھڑاتی آواز میں اپنے میاں کو آواز دیتی خدا کے لیے مجھے بچا لو مجھے سانس نہیں آرہی سانس آنے سے ہی تو جسم کے باقی نظام دل رگوں میں خون گردش کر تا ہے دماغ کو آکسیجن لگاتا ر پہنچنے سے ہی وہ پو رے جسم کے توازن کو قائم رکھتا ہے۔

آکسیجن کی کمی مریضہ کو چاروں طرف موت کے فرشتے نظر آنا شروع ہو جاتے ووہ بیچاری مرض الموت میں سسکیاں لیتے ہوئے میاں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھتی ‘ میاں بیچارہ بار بار مجھے دیکھتا بھٹی صاحب اگر کسی ہسپتال میں داخلہ نہ ملا تو یہ مر جائے گی میرا گھر اجڑ جائے گا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اِسی کے دم سے میرا گھر چل رہا ہے یہ نہ رہی تو میں بھی نہیں رہوں گا ‘ حالت بیچارگی میں دونوں میاں بیوی رونا شروع کر دیتے مریضہ کی حالت زار بیماری سانس کا اکھڑنا دیکھ کر میں دوستوں کو فون کرنا شروع کر دیتا رات کے دو بجے کے بعد تقریباً سارے لوگ ہی سو جاتے ہیں اب اِس ہسپتال میں آئے تو انہوں نے بھی صاف انکار کر دیا کہ کھانسی بخار داخلہ بند ہم لوگ روڈ پر بھی کھڑے ہو کر دائیں بائیں فون گھمانے لگے مریضہ کی حالت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بگڑتی جا رہی تھی۔

دس بارہ دن پہلے مریضہ بلکل نارمل تھی دو ماہ سے میاں بیوی بچوں کے ساتھ تو گھر میں قید تھے میاں نے سختی سے رشتہ داروں بہن بھائیوں دوستوں کو فون کر دیا تھا کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی اِن دنوں کرونا کی شدید لپیٹ میں ہے لہٰذا کوئی بھی میرے گھر آنے کی زحمت نہ کرے اور پھر اِس پر سختی سے پابندی بھی کی ‘ پابندی اِس لیول کی کہ گھر کے دروازے تک بھی ماسک پہن کر آتے انتہائی مجبوری میں میاں گھر سے نکلتا تو سینی ٹائز ہو کر ماسک پہن کر گھر کا سودا سلف لے کر واپس آجاتا ‘ کرونا کے ایس اوپی پر انتہائی سختی کے ساتھ عمل کر رہا تھا اہل محلہ اور رشتہ داروں کو بھی تلقین کر تا کہ کرونا ایک خطرناک وبائی بیماری ہے اِس سے بچائو کی ساری تدابیر اختیار کریں لیکن عید سے پہلے گریٹ پاکستانی گورنمنٹ نے جب لاک ڈائون ختم کیا تو بیگم صرف ایک بار بازار چند ضروری چیزیں ماسک پہن کر گئی ماسک پہنا ہوا تھا اب وہاں کسی دوکان پر کسی متاثرہ جگہ یا چیز کو ہاتھ لگا وہ ہاتھ غیر ارادی طور پر ناک منہ یا کان کو لگا بیٹھی جبکہ وہ مکمل مطمئن تھی کہ میں دوماہ سے گھر سے نہیں نکلی دروازے تک بھی ماسک پہن کر جاتی ہوں بازار بھی ماسک پہن کر آئی ہوں تو میں سو فیصد محفوظ ہوں لیکن کرونا وبا کے پھیلا ئو اور انداز کریکٹر کی جانچ پڑتال کے مر احل ابھی جاری ہیں۔

ابھی تک دنیا اُس کے مزاج اور پھیلائو کے طریقوں سے پوری طرح واقف نہیں ہے اِسی لیے پتہ نہیں کہاں کیسے جراثیم اُس کے ہاتھوں جسم پر آئے اور پھر موقع ملتے ہی اُس کے پھیپھڑوں تک پہنچ کر بربادی کا آغاز کر دیا فوری بخار ہو اتو فیملی اِس زعم میںکہ ہم تو سختی سے احتیاط اور کورنٹائن ہیں گھر میں ہمارے آس پاس تو کرونا پھٹک بھی نہیں سکتا بخار نے جب شدت اختیار کی کھانسی گلے کا درد بھی شروع ہوا تو مقامی ڈاکٹر سے رجوع کیا اُس نے جب ہسٹر ی لی کہ مکمل گھر پر محتاط زندگی گزاری جا رہی ہے اُس نے عام فلو زکام کی دوائی دے دی ‘ پانچ دن مسلسل ڈاکٹر کی دوائی سے جب بلکل بھی فرق نہ پڑا بیماری ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر تی جارہی تھی تو مجبوراً قریبی چھوٹے ہسپتال میںمریضہ کو دکھایا گیا کہ مریضہ کو کھانسی سینے کی انفیکشن بخار بہت ہے اُس نے جب ہسٹری لی تو اُس نے بھی روٹین کی دوا یہاں شروع کر دی ساتھ ہی مریضہ کو داخل کر لیا تاکہ اُس کی لوٹ مار کا میٹر آن ہو سکے پانچ دن مریضہ یہاں رہی ہیوی انٹی بائیوٹک انجیکشن ڈرپس دوائیاں دی جارہی تھی لیکن مریضہ کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے خراب ہو تی جارہی تھی آخر دس دن بعد میاں نے جب کرونا ٹیسٹ کروایا تو مثبت آیاتو ہسپتال اور میاں کے ہاتھ پائوں پھول گئے یہاں پر درندگی کا ایک اور مظاہرہ سامنے آتا ہے۔

ہسپتال والے تو اپنی کمائی پر لگے ہو ئے تھے جب انہوں نے دیکھا مریضہ کے سارے پھیپھڑے گل سڑ گئے ہیں اور یہ بیماری کی آخری سٹیج ہے ساتھ ہی کرونا کا خوف بھی تو انتہائی ظالمانہ طریقہ اپناتے ہوئے کہا ہم ہسپتال کو جراثیم سے پاک کر نا ہے ہم سارا ہسپتال خالی کر رہے ہیں یہ لیں ڈسچارج سلپ اور مریضہ کو گھر لے جائیں یا کسی اور ہسپتال ہم مریضہ کو مزید ہسپتال میں نہیں رکھ سکتے تو مریضہ کے میاں کا مجھے فون آیا اور بتا یا میں اپنی زندگی کی ساری کمائی لگانے کو تیار ہوں خدا کے لیے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں ایک بیڈ دلا دیں چاہیں وہ گلی میں ہی کیوں نہ ہو میں نے آسان کام سمجھ کر دو چار دوستوں کو فون کیا تو ہو شربا خبریں آئیں کہ لاہور کے سارے پرائیویٹ ہسپتال بھر چکے ہیں اب مزید ایک بھی مریض کی گنجائش نہیں ہے شام سات بجے ہسپتال والوں نے مریضہ کو ڈسچارج سلپ تھما دی کہ آپ ہماری طرف سے آزاد ہیں سفارش کر ا کر قریبی ہسپتال گئے انہوں نے جب ایکسرے دیکھے تو بولے ہم نے سارے ہسپتال کو کرونا کرا نا ہے بلکل نہیں آپ کسی اور ہسپتال جائیں اُس کے بعد ہماری میرا تھن ریس کا آغاز ہوا سڑکوں پر دوڑتے پھر رہے ہیں ایک سے دوسرے ہسپتال کے حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ جس ہسپتال میں بھی جاتے وہ مریضہ کو دیکھ کر ہمارے چہروں پر ماسک دیکھ کر حکم جاری فرماتے یہاں داخلہ بند ہے ہسپتال بھر چکا ہے۔

ہم تو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال سڑکوں پر بھاگ رہے تھے چند دوست ہمارے فون پر مختلف ڈاکٹروں ہسپتالوں سے رابطے میں تھے کہ اب ہم اِس بات پر تیار تھے لاہور کے مضافات میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا ہسپتال ہمیں اندر گھسنے دے تا کہ مریضہ کی حالت سدھر سکے جس سے بات کر تے کرونا کا نام سنتے ہی دروازہ بند کچھ جگہوں ہم نے چالاکی کی کو شش کی کہ پتہ نہیں آپ ایمرجنسی میں تو جانے دیں تو انہوں نے مریضہ کو دیکھ کر کہا اُس کی سانس اکھڑی ہوئی ہے بخار ہے کھانسی سانس نہیں آرہا اِس کو کرونا ہے آپ چلے جائیں پرائیویٹ ہسپتال جو مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں وہ دھکے دے رہے تھے آخر کار ہم اِس پانچویں ہسپتال بہت بڑی سفارش کرا کر آئے ساتھ میں رشوت بھی دی تو بڑی مشکلوں سے احسان عظیم کے بعد مریضہ کو آئسولیشن وارڈ میں داخل کرایا جب مریضہ کو کرونا سے بچائو کی وردیوں میں ملبوس ہسپتال کا عملہ اندر وارڈ لے کر جا رہا تھا تو ہم سمجھ رہے تھے ہم نے اولمپک کا طلائی تمغہ جیت لیا ہے۔

مریضہ کو صحت ملتی ہے کہ نہیں یہ تو اللہ جانتا ہے ہسپتال میں داخلے سے ہم بہت خوش تھے جس نے داخلہ کرایا وہ اِس طرح احسان جتا رہاتھا جیسے کو ئی پلازہ ہمارے نام لگا دیا ہو جو لوگ پاکستان میں اِس وقت بھی کرونا کو مزاق سمجھ رہے ہیں خدا کے لیے آنکھیں کھولو یہ وبا اوربلا واقعی جان لیو ا ہے اب تو روزانہ مجھے بھی دوستوں عزیزوں کے فون آنا شروع ہو گئے ہیں کہ فلاں کو کرونا ہو گیا فلاں انتقال کر گیا خدا کے لیے معصوم قوم اب جاگ جائو کیونکہ گورنمنٹ پتہ نہیں کس ایجنڈے پر کام کر کے ہر چیز کھول رہی ہے لاک ڈائون ختم کر دیا ہے اور بائیس کروڑ عوام کو جانوروں کے کھلے ریوڑوں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے کہ دوچار لاکھ مر بھی جائیں تو اتنی بڑی آبادی سے کچھ فرق نہیں پڑے گا گورنمنٹ ذہنی طور پر بہت سارے لوگوں کے مرنے کے لیے تیار ہے ہسپتال بھر چکے ہیں یہ نہ ہو کہ عوام سڑکوں پر گلی محلوں گھر میں کھلے آسمان کے نیچے مدد مدد پکارتی موت کی وادی میں اُترنا شروع ہو جائے خو د کو اپنے پیاروں کو خاندان والوں کو کرونا کے مرض سے بچائیں ہسپتال بھر چکے ہیں گورنمنٹ ہاتھ اٹھا چکی ہے کسی نے آپ کو وارث نہیں بننا آپ بے یارومدد گار مر جائیں گے جاگ جائیں کرونا شدت سے پھیل چکا ہے اور انسانوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org