کرپشن یا رشوت کیوں

Chief Justice of Supreme Court

Chief Justice of Supreme Court

٨٣، ارب کی کرئپشن کے مقدمہ کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے توقیر صادق سابق چیئر مین اوگرا کے ملک سے فرار ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوؤے کہا کہ نیب نیک نیتی سے کام نہیں کرتا ای سی ایل میں توقیر صادق کا نام تھا پھر وہ بیرون ملک کیسے چلے گئے( ٨٣ ، ارب کا گھپلا ہے دو چار ارب دئے ہونگے اور سکون سے چلے گئے اب توقیر صادق واپس لائے گئے ہیں، ریمانڈ پر دوران تفتیش ایجنسی کو یہ پیش کش کی کہ وہ رضا کارانہ طور پر ایک ارب روپئے واپس کرنے کو تیار ہیں اِس کا مطلب ہے گویا سودے بازی کر کے باقی ہڑپ کرنا اور سزا سے بچنا چاہتے ہیں اس کا یہ مطلب بھی ہے۔

کہ اُس نے کرپشن کی جس سے ایک ارب واپس کرنا چاہتے ہیں اور ایسا ہوگا کہ یہ چین نہیں جہاں ایسے وزیر کو انتہائی سزا سنائی گئی یہ پاکستان ہے آج تک کسی رشوت خور کو سزا نہیں ملی وہ اسی طرح سودے بازی سے کچھ لو اور کچھ دو بچ جاتے ہیں اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ریمارکس دیتے ہؤئے مزید کہا کہ ملک پولیس سٹیٹ بن گئی ہے کوئی کام پیسے کے بغیر نہیں ہوتا لوگ جائز کام کے لئے بھی رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں تو جناب والا دیکھا گیا ہے کہ مرتشی پیسے لیکر کام کرتے ہؤئے راشی پر احسان کر تا ہے اور راشی ممنون ہوتا ہے۔

پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم بری ہوجاتے ہیں اور الزام عدالتوں پر آتے ہیں ،پولیس کے خلاف یا رشوت پر کوئی پہلے ریمارکس نہیںیہ تو پرانی بات ہے،اور اب پبلک اکاؤنٹ کمیٹی، ایف بی آر، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بعض اداروں کی رپورٹس کے مطابق ملک میں روزانہ ہونے والی کرپشن کا حجم سے ١٢ ارب ،تاہم نیب نے اس کا تخمینہ روزانہ ارب کی کرپشن لگایا، رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوأ کے ٣، سیارب سالانہ کے ٹیکس چوری ہوتے ہیں، کس قدر دل ہلا دینے والے انکشافات ہیں ، ایک طرف دشت گرد ملک کی جڑہیں کاٹ رہے ہیں تو دوسری طرف یہ ٹیکس چور اور لینڈ مافیا ملک کو سالانہ اربوں بلکہ کھربو کا ٹیکا لگا رہے۔

٢٠٠٨ کے بعد ملک میں مہنگائی،بے روزگاری، توانائی کا بحران، روپئے کی قدرمیں شرم ناک حد تک کمی، بیرونی اور اندرونی قرضوں کے حجم میں بے پناہ اضافہ، اور کرپشن نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ہیں ایک کرپشن وہ ہے کہ لوگ ملک و معیشت کو کھا رہے اور معاشرہ کرپٹ سیاسی بدعنوانی کے شکنجے میں، میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ الفاظ ساتھ دینے سے قاسر ہیں سوال پیدا ہوتا ہے یہ کرپشن کیوں مگر درست لفظ جو سارے منظر یا پس منظر کی عکاسی کرتا ہے جو اِس وقت معاشرے پر صادق آتا ہے وہ رشوت خوری جو نیچے سے اوپر تک معاشرے کی رگ و پے میں سرائت کر چکی ہے، گویا اب خون اور گوشت میں مل کر جسم کا حصہ بن گئی ہے۔

Lahore High Court

Lahore High Court

جولائی ٢٠١١،لاہور مین ایک عدالتی اجلاس جس میں پنجاب کے جج صاحبان اور سیشن جج صاحبان سے خطاب کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدلیہ کا ٩٠ فی صد عملہ کرپشن میں ملوث ہے یہ بڑے پتے کی بات، کہ ایک جج یہ کہہ رہے کہ اُن سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا کہ وہ اِس راہ سے گزرے ہیں انہوں نے صرف ماتحت عدلیہ کے عملہ ہی کو کر پٹ کہا۔ اعلےٰ عدلیہ میں تو یقیناً فرشتے ہونگے یا پھر وہ اِس معاشرہ کا حصہ نہیں، بہر حال جو کچھ سمندر میں جال دیکھتا ہے وہ ماہی گیر کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، بے شک اس سے مخلصی کے لئے بلند و بانگ دعوے تو کئے جاتے رہے ہیں۔

اور ایک ادار ہ بھی قائم ہے ،جسکا نام انٹی کرپشن ،مگر پھر بھی کمی نہیں اضافہ ہی ہوأ ہے کہ یہ بھی نمک کی کان میں نمکین ہو گیا، کیا اعلےٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے علم میں نہیں کہ عدالتوں میں کتنی اور کس طرح رشوت کا چلن ہے اور کون کون ملوث ہوتے ہیں,یہ بھی تو اِسی معاشرے کا حصہ ہیں ..٢ جولائی 2012کو الحمراہ حال میں پاکستان پائندہ باد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے کہا، کیا کرپشن عدلیہ، فوج، حکومت اور دوسرے حلقوں میں نہیں کرپشن نے نہ صرف ملک کے اداروں کو تباہ کیا بلکہ اغیار کے سامنے رسوا بھی کیا یہ بڑے پتے کی بات ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ سے حکومت کر رہے ہیں۔

اُن سے بہتر اندر کے حالات سے کون واقف ہو سکتا ہے !اِس کا یہ مطلب ہے،کرپشن کی درد اور لذت سے ہر کوئی واقف کہ کہیں نہ کہیں اِس سے ضرور پالا پڑا اُن کے اِس بیان میں خاصہ وزن، جہاں وہ حکمران ہیں وہاں ایک تاجر،سنعت کار بھی اور سیاست دان بھی۔ رہا سوال فوج کا تو کیا وہ کوئی دوسری دنیا سے آئی ہے وہ بھی تو اسی معاشرے سے ہے، ؟یہاں بھی کرپشن تو بہت مگر نظروں سے اوجھل ہے، اب اِس سے نجات ممکن ہی نہیں، محض دعوے ہی دعوے مگر ایک اہم سوال ہے، رشوت کیوں انسانی ترقی اورفلسفے کا پہلا لفظ کیوں اگر یہ لفظ لغت اور ذہن میں جگہ نہ پاتا تو یہ ترقی یافتہ آدم زاد آج بھی پتھر کے زمانے میں ہوتا یہ لفظ کیوں ہے جس کی راہنمائی میں انسان نے قدرت کے سربستہ راز تک کھول دئے مگر کیوں بدستور سامنے حل طلب کھڑا ہے۔

Bribery

Bribery

ایسا نہیں کہ رشوت آج ہے کل نہیں تھی نہیں یہ تو ہر عہد میں ،یہ ہر زمانے میں رہی، تحائف کی صورت کبھی محض پھل اور پھول تک ،جہاں آدم زاد نے دیگر شعبہ ہا ئے زندگی میں نت نئی دریافتیں کیں وہاں اِس نے رشوت کو بھی نئی جہت دی، پھول اور پھل کا زمانہ گزرا، توصاحب کے بچوں کی تفریح کے لئے ٹی وی،گھر بھیج دیا ،پھر اس کے ساتھ فریج بھی گھر پہنچا، جب مزید ترقی ہوئی تو کار کی چابی میز پر رکھ دی اور کہا بچوں کے سکول جانے کے لئے جب اِس سے بات آگے بڑھی تو کسی اچھے مقام پر پلاٹ کی رجسٹری یہ رشوت مختلف مدارج طے کرتے ہوئے آج نقد ڈالروں کی صورت میں بیرون ملک بنکوں میں جمع ہوتی ہے۔

،تاکہ بے بی اور بے با کی تعلیم اور سیر کے اخراجات پورے ہوں یہ بیماری اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ملک میں کوئی ایک ایسا ادار بھی نہیں جس کے لئے کہا جائے کہ وہاں رشوت کا چلن نہیں، جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے یوں تو رشوت کو روکنا ممکن نہیں کہ اِس کے رنگ اور ڈھنگ بڑے نرالے ہیں تاہم کچھ کہہ دینے میں کیاحرج ہے، حکومت صرف اپنا ٹیکس وصول کرنے کے لئے آنکھیں بند رکھتی ہے ورنہ جب ایک صاحب ڈیفنس جیسی بستی میں عمارت بنانے کے لئے نقشہ پاس کراتا ہے تو ،یہ بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ اتنی دولت کہاں سے اور کس زر یعہ سے آئی کہ محض باتھ روم یا عام زبان میں لیٹرین پر لاکھوں کا خرچ ایک لینڈ کروزر جیسی قیمتی گاڑی خریدتا ہے۔

تو معلوم کیا جائے کہ اسکے زرائع آمدن کیا،اور کتنا ٹیکس دیتا ہے یہ بھی سوچنے کی بات ہے ،47 میں ہند و پاک میں انگریز سے مراعات یافتہ جاگیر دارانگلیوں پر گنے جاتے پہلی مرتبہ ٢٢ خاندان سامنے آئے اور باقی تو، لوہار، ترکھان، موچی، جولاہے، تیلی، کمہار اور اور آج انہی لوگوں کے بیرون ملک بینکوں میں اکاؤنٹ ہیں ایک تجویز ہے کہ محل نما ایکڑوں پر پھیلی کوٹھیوں کی تعمیر پر پابندی لگا دی جائے، جب تک ملک قرض کی مے تیل پینے پر مجبور ہے ہر قسم کی گاڑیوں پر پابندی لگا دی جائے ،دور نہ جائیں چھٹے عشرے میں خواص بھی اومنی بسوں میں سفر کرتے، عام لوگ سائیکل یا سڑک سوار تھے۔

وہ جنہیں اپنی شان ِامارت برقرار رکھنا ہے بگیاں بنالیں تاکہ اُن کی امارت کا بھرم قائم رہے رشوت کو روکنا مشکل ضرور ہے مگروہ لوگ ہی بلی کے گلے گھنٹی باند سکیں گے جو ملک اور قوم سے بلکہ خو د سے بھی کمٹڈ ہوں، اور تو اور جو ماں کی سفارش سننے کو تیار نہ ہو، اور تفتیشی ایجنسی در آمد کر لی جائے، جس تک کسی کی سفارش اور رشوت نہ پہنچ سکے، تو پھر ممکن ہے۔

معاشرے کی حالت سُدھر جائے، ورنہ تو مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ملک کی معاشی،معاشرتی ،تہذیبی، اور اخلاقی قدریں ایسی پستی میں گر تی جارہی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں اِسیکیوں نے انسان کو ستاروں پر روائتی کمند ڈالنے کو حقیقت میں بدل دیا، ہم اِس کیوں ہی کی راہنمائی میں رشوت کے ظالم عفریت سے کیوں کر چھٹکار انہیں پا سکتے اِس کیوں کی تلاش از بس ضروری ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی
03054784691