”عدالتی شادیاں”

Court Marriage

Court Marriage

تحریر : مجید احمد جائی
ہم اسلامی معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔چھوٹے بڑے خوب جانتے ہیں کہ پاک وطن دو قومی نظریہ پر حاصل کیا گیا۔ہمارے بڑوں نے بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا تاکہ آزاد رہ کر اسلامی طرز زندگی مکمل آزادی کے ساتھ جی سکیں۔ہماری ثفاقت، کلچر، تہذیب وتمدن، رسومات ،اٹھنا ،بیٹھنا، لباس یہودیوں انگریزوں سے الگ تھلگ ہے۔ہم آزاد تو ہو گئے(صرف نام کے آزاد ہوئے)لیکن غلامی کی زنجیریں توڑ نہ سکے،آج بھی ہمارے پائوں جکڑے ہوئے ہیں۔ہاتھ باندھے ہوئے ہیں،ذہنوں پر انگریز مسلط ہے۔ہمارا رہن سہن،پہننا اوڑھنا انگریزوں جیسا ہے۔ہماری رسومات میں یہودیت سما گئی ہے۔

ہم نے اپنی تہذیب،کلچر ،رسومات کو پشت وپردہ ڈال کر ہندوئوں ،انگریزوں کی رسومات کے طوق گلے میں ڈال لئے ہیں۔ ہمارے قول و فعل انگریزوں، یہودئوں کے پیروی کرتے ہیں۔ہماری عورتوں کے سر سے ڈوپٹہ جاتا رہا،مردوں کی آنکھوں میں حیا نام کی چیز غائب ہو گئی۔فحاشی عام ہوگئی۔شرم و حیا کا دور دور تک نام و نشان نہیں رہا۔بیٹی نظر آتی ہے ،نہ بہن۔انسان سے درندے بنتے جا رہے ہیں۔شراب ہم پیتے ہیں،جُوا ہم کھیلتے ہیں۔اشیاء خورد نوش میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔کرپشن ہماری رگ رگ میں سما گئی ہے۔اور تو اور بیچارے نمک تک کو نہیں چھوڑا،اس میں بھی پتھر پِس رہا ہے۔زنا ہم کرتے ہیں۔مائوں،بہنوئوں کے آنچل ہم داغدار کر رہے ہیں۔ کرپشن کا ذکر خیرچل ہی نکلا ہے تو ذرا کورٹ کچہری کی طرف چلتے ہیں۔کورٹ کچہری میں جو کچھ ہو رہا ہے سب جانتے ہیں۔لوگ بک رہے ہیں،لوگ خریدے جا رہے ہیں۔سچائی ناپید ہو گئی ہے اور جھوٹ نے ڈیرے جما لئے ہیں۔جو قصور وار ہیں وہ ڈندناتے پھر تے ہیں اور جس نے گناہ کیا نہیں، سلاخوں کے پیچھے پڑا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں بُرائی عروج پکڑ چکی ہے۔خون ریزی،قتل و غارت،انسانوں کو جانوروں کیطرح کاٹ دیا جاتا ہے۔فحاشی کے اڈے کھلے عام چل رہے ہیں۔شراب آسانی سے مل بک رہی ہے جواری ڈھڑلے سے جُوا کھیل رہے ہیں۔تاجر ڈھٹائی سے ریٹ بڑھا چڑھا کر وصول کررہے ہیں پٹرول ہو یا دالیں،لال مرچیں ہوں چینی،سوجی ،معدہ،ہر چیز میں ملاوٹ کا جن سیر کر رہا ہے کوئی پکڑتانہیں،کوئی ڈرتا نہیں،کسی کو ڈر ہے ہی نہیں۔قانون جاگتی آنکھوںسے سو رہا ہے مافیا نے قانون اپنی مٹھی میں بند کیا ہواہے۔بندہو بھی کیوں ناں۔قانون کی مٹھیاں گرم جو ہو جاتیں ہیں۔کون پوچھے،کس کو فرصت ہے۔؟

Marriage

Marriage

جہاں معاشرہ بُرائیوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے وہاں کورٹ میرج نے زور پکڑ لیا ہے۔گھر سے فرار لڑکیوں کی کو پناہ کورٹ میںہی ملتی ہے۔کوئی بھی لڑکی رات کی تاریکی میںگھر کی دہلیز پار کر عدالت پہچ جاتی ہے اور عدالت بنا چانچ پڑتال کے اس کے ساتھی لڑکے کے ساتھ نکاح کر دیتی ہے۔اسلام اپنی حق رائے کی اجازت ضرور دیتا ہے لیکن ایسا تو نہیں کہتا کہ والدین اولاد کو پال پوس کر جوان کرتا ہے اور وہ ان کی عزت کی ڈھجیاں اڑ کر عدالت سے میرج کر لیں۔ عدالتیں ایسے لوگوں پر اندھا اعتبار کرکے نکاح کر دیتی ہیں۔ہو سکتاہے ان کا نکاح پہلے بھی ہو چکا ہو۔کیا ایسے نکاح جائز ہیں؟اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ جو لڑکی گھر سے فرار ہو کر آتی ہے ،اس کا ہونے والا شوہر کرائے کے والدین جو صرف 2000میں باآسانی عدالت ہی سے مل جاتے ہیں۔لے آتے ہیں اور عدالت میں بیان دے کر نوٹ ہاتھوں میں پکڑتے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔عدالتیںہوں یا نکاح خواں جن کے پاس نکاح کے رجسٹر ہوتے ہیںجاننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے۔یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں جاتی کہ لڑکی کے والدین اصلی ہیں یا کرائے پر لئے گئے ہیں۔کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی اور نکاح پہ نکاح ہو رہے ہیں۔کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ْیہی وجہ ہے آج ہم بُرائیوں میں گِرتے جاتے ہیں اولادیں نافرمان ہوگئیں ہیں۔بیٹی ،ماں کی گردن کاٹ رہی ہے ،بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے لڑکیاں گھر سے فرار ہو رہی ہیں۔

ہم مسلمان ہیں ۔ہمیں اسلامی طرز زندگی اپنانی چاہے۔معاشرے میں پھیلنے والی بُرائیوں کے ذمہ دار ہم خود ہے نہ کہ بیرونی طاقتیں۔جب تک ہم غلط راستہ اختیار خود نہیں کریں گے کوئی بھی ہمیں غلط سمت گامزن نہیں کر سکتا ہے۔ہم خود ہی اپنوں کے ہاتھوں رسوا ہورہے ہیں۔اپنوں کا گلہ اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔ہمیں استعمال کیا جارہا ہے اور ہم بھی عقل پر قفل لگائے،رام رام کر رہے ہیں۔ہمیں بُرائیوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔قانون بنانے والے انصاف کرنے لگ جائیں تو معاشرے میں جنم لینے والی بُرائیوں کا جڑ سے خاتمہ ہو سکتا ہے۔ہر فرد اپنی جگہ انصاف کرنے پر راضی ہو جائے تو معاشرے میں امن،سلامتی قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

عدالتوں کو چاہیے کہ ایسی شادیوں کروانے سے پہلے چانچ پڑتا ل کر لیںتو کوئی لڑکی گھر سے فرار ہی نہ ہو۔والدین بھی ان کی مرضی پر پورا پورا انصاف کریں ۔ورنہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گااور ہمارا دُنیا میں نام ونشان تک نہیں رہے گا۔ کاش!ہر فرد اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتا،آج بھی اگر ہم امتی محمدیہ ہونے کے ناطے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو جائیں تو تما م بُرائیاں جڑ سے ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔آئو اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے انصاف کرنے کی ٹھان لیں۔

Abdul Majeed Ahmed Wafa

Abdul Majeed Ahmed Wafa

تحریر : مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmai;.com