ایران نے گزشتہ برس کم از کم 280 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا

Death Penalty

Death Penalty

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) سن 2021 کے دوران ایران میں کم از کم دو سو اسی افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یہ بات ایران کے لیے مقرر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی رپورٹ میں بیان کی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے خصوصی رپورٹیئر جاوید رحمٰن نے واضح کیا کہ سن 2021 میں جن افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے، ان میں منشیات کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق موت کی سزا پانے والوں میں دس خواتین بھی شامل تھیں۔

جاوید رحمٰن نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ دو سو اسی میں اسی سے زائد افراد کو منشیات یا اس کے کاروبار میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت ایرانی عدالتوں نے موت کی سزا سنائی تھی اور بعد میں ان پر عمل بھی کر دیا گیا۔ منشیات فروشی یا اسمگلنگ کے شبے میں پھانسی پانے والوں میں چار افغان باشندے بھی شامل تھے۔

آزاد نمائندے کے مطابق پھانسی پانے والوں میں کم سن یا ‘چائلڈ‘ مجرمین بھی شامل تھے۔ ان مجرموں کی عمریں اقوام متحدہ کے ضوابط کے مطابق اٹھارہ برس سے کم تھیں۔ تختہٴ دار پر لٹکائے جانے والے ‘چائلڈ‘ مجرموں کی تعداد تین تھی۔ رپورٹیئر کے مطابق سن 2021 میں سن 2020 کے مقابلے میں زیادہ خواتین کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ موت کی سزا پانے والوں میں چالیس بلوچ اور پچاس کرد باشندے بھی شامل تھے۔

اقوام متحدہ کے ایران کے حالات و واقعات کی رپورٹنگ کے خصوصی نمائندے جاوید رحمٰن نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ سن 2021 میں ایران میں موت کی سزاؤں میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ ان کے مطابق اسی برس اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے والی نسلی اور مذہبی کمیونیٹیز کے مبینہ مجرموں کو دی جانے والی موت کی سزائیں بھی زیادہ تھیں۔

نمائندے کے مطابق انہیں ایران کے اندر سے اپنے ذرائع نے موت کی سزاؤں میں مجرموں پر کیے جانے والے ٹارچر کی مصدقہ اور قابلِ اعتبار اطلاعات بھی فراہم کی تھیں۔
انصاف سے محرومی

جاوید رحمٰن کے مطابق ایک طرف تو دباو سے لیے گئے اعتراف جرم نے حقیقی انصاف کا راستہ روک رکھا ہے تو دوسری جانب تختہٴ دار پر چڑھائے جانے والے افراد کے خاندان اور دوست احباب کو بھی حکومتی گماشتے کوئی بات ظاہر کرنے پر ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

رپورٹیئر نے شدید ٹارچر اور ڈرانے دھمکانے کے غیرقانونی اور غیر انسانی سلسلے پر بھرپور الفاظ میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جنوری سن 2021 سے یکم دسمبر تک گیارہ کرد قیدی نامعلوم حالات میں ہلاک ہوئے اور ان کی ہلاکت بارے کوئی حکومتی یا جیل حکام کی جانب سے مناسب وضاحت جاری نہیں کی گئی۔

اس رپورٹ کے اجراء کی ایرانی عدالتی اتھارٹی کے نائب صدر کاظم غریب آبادی نے شدید مذمت کی ہے۔ اس مذمتی بیان میں انہوں نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کی ہائی کونسل کو بھی نہیں بخشا۔ جاوید رحمٰن کو ایران نے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔