کیا یوکرین جنگ ختم کرنے کا یہ واحد راستہ ہے؟

Ukraine War

Ukraine War

یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) تین ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد روسی اور یوکرینی مذاکرات کار مستقبل میں یوکرین کے لیے ممکنہ ’فوجی نیوٹریلٹی یا غیر جانبداری‘ کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یوکرین کی نیٹو سے قربت نے ہی روس کو حملے کے لیے اشتعال دلایا ہے۔

روس اور یوکرین کے مابین رواں ہفتے ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں اس ‘خونی بحران‘ سے نکلنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ مذاکرات کے بعد یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا ایک واضح بیان بھی سامنے آیا ہے، جس کے مطابق یوکرین شاید مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔ قبل ازیں یوکرین کا موقف تھا کہ وہ نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے اور روس اس کا مخالف ہے۔ یوکرین کا یہی وہ موقف ہے، جو روسی حملے کی وجہ بنا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس طرح امریکہ کے میزائل اس کے دروازے کے بالکل سامنے نصب کیے جا سکتے ہیں۔

معاملے کی حساسیت کی وجہ سے یوکرین کے صدارتی دفتر کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مذاکرات اس مرحلے میں پہنچ چکے ہیں، جہاں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا روسی فوجی علیحدگی پسند مشرقی علاقوں میں موجود رہیں گے اور جنگ کے بعد یوکرین کی سرحدیں کیسی ہوں گی؟

یوکرین کم از کم ایک مغربی ایٹمی طاقت کو بھی مذاکرات میں شامل اور روس کی طرف سے فراہم کی جانے والی سکیورٹی ضمانتوں کو دستاویزی شکل فراہم کرنا چاہتا ہے۔ یوکرینی صدارتی ذرائع کے مطابق اس کے بدلے میں یوکرین ‘نیوٹرل ملٹری اسٹیٹس‘ پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور روس کے چیف مذاکرات کار ولادیمیر میڈنسکی نے پہلی مرتبہ بدھ کے روز عوامی سطح پر کہا تھا کہ یوکرین کے لیے ‘نیوٹرل اسٹیٹس‘ کا مسئلہ مذاکرات کی میز پر ہے۔ تب سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس کا ممکنہ مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ابھی تک یہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ واقعی ہو پائے گا۔

بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملے میں پہل کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ مغرب نیٹو اتحاد کے مشرق کی جانب توسیع نہ کرنے کے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

یہ کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دینے کے بارے میں ہے یا کسی بھی اتحاد کا حصہ نہ بنتے ہوئے کسی تنازعے سے دور رہنے سے متعلق ہے۔ لیکن ‘غیرجانبدار ممالک‘ کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یورپی ممالک میں اگر غیرجانبداری کا ذکر کیا جائے تو سوئٹزرلینڈ کا تصور ابھرتا ہے۔ اس ملک نے بھی آسٹریا کی طرح نیوٹریلٹی کو اپنے آئین کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح یورپ میں سویڈن، فن لینڈ اور آئرلینڈ بھی ‘نیوٹرل حیثیت‘ کے حامل ممالک ہیں۔ کبھی بیلجیم بھی اسی فہرست میں شامل تھا لیکن اب یہ ملک نیٹو اتحاد کا حصہ ہے۔

اگر یورپ میں نیوٹریلٹی یا غیرجانبداری کی بات کی جائے تو اس حوالے سے سوئٹزرلینڈ یورپ کا علمبردار ملک ہے۔ یہ ملک کسی بھی اتحاد میں شامل ہونے سے گریزاں ہے، یہاں تک کہ اس نے یورپی یونین میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ یہ مخالف ممالک کے مابین ایک ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کا رکن ہے اور ایسا بھی فقط بیس برس پہلے ہوا تھا۔

لیکن روس کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے سوئٹزرلینڈ نے یورپی یونین کا ساتھ دیا ہے۔ اور کئی دیگر یورپی ممالک بھی ‘اصل نیوٹریلٹی‘ کی لائنوں سے ہٹ رہے ہیں۔ سویڈن کی فورسز نیٹو کے ساتھ فوجی مشقوں میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ ناروے اور فن لینڈ ایک عرصے سے نیٹو میں شامل ہونے سے انکار کرتے آئے ہیں لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد یہ بھی اپنی رائے تبدیل کر رہے ہیں۔

مؤرخ لیوس مولر آسٹریا کو ایک قابل فہم ماڈل قرار دیتے ہیں، جس نے نیٹو میں شمولیت سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں آسٹریا نازی جرمنی کا اتحادی تھا لیکن پھر اس پر بھی چار اتحادی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ اتحادی ممالک برطانیہ، فرانس، امریکہ اور سوویت یونین تھے۔ سن 1955 میں اتحادی ممالک نے آسٹریا کو آزاد کرتے ہوئے وہاں سے اپنی فورسز نکالنے کا فیصلہ کیا۔ تب صرف ماسکو نے یہ اصرار کیا تھا کہ آسٹریا کو پہلے اپنے آئین میں ‘نیوٹریلٹی‘ کی ضمانت فراہم کرنا ہو گی۔

اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر اور ‘نیوٹریلٹی ان دا ورلڈ ہسٹری‘ نامی کتاب کے مصنف لیوس مولر کے مطابق یوکرین روس تنازعے کا یہی سب سے بہترین حل ہے کیوں کہ آسٹریا میں یہ کامیابی سے ہمکنار ہے۔

اصل میں غیرجانبداری یا نیوٹریلٹی کا نظریہ صدیوں پرانا ہے۔ جیسے کہ پانچویں صدی قبل از مسیح میں کچھ یونانی شہری ریاستوں نے مسائل سے بچنے کے لیے ‘جنگ پلوپونز‘ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ جدید یورپ میں غیرجانبداری کا عملی مظاہرہ اٹھارویں صدی میں دیکھنے کو ملا، جب ‘معاہدہ ویسٹ فیلیا‘ کیا گیا۔ مولر کے مطابق اسی معاہدے کے نتیجے میں تیس سالہ یورپی جنگ کا خاتمہ ہوا اور ایک ‘بین الاقوامی قانون‘ کا ظہور ہوا۔ مولر کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک نے تو اپنے ذاتی مفاد میں ‘نیوٹریلٹی‘ کا انتخاب کیا جبکہ کچھ نے اخلاقی بنیادوں پر ایسا کیا۔ مولر کہتے ہیں، ”جب آپ پر واضح نہ ہو کہ کس کا ساتھ دینا ہے، اچھا کون اور برا کون ہے؟ پھر اخلاقی طور پر یہی بہتر ہے کہ درمیانی راستہ اختیار کیا جائے۔‘‘