جرائم کی جڑ

Prayer

Prayer

ہمارے ملک میں یوں توبے شمار مصیبتوں اور آفتوں کے پہاڑ ہیں جو آئے دن معصوم اور بے گناہ عوام پر ٹوٹتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بے شمار مسائل موجود ہیں جن سے پاکستانی قوم بے حد پریشان ہے۔ مسجد اللہ کا گھر آج یہاں بھی پاکستانی بلا خوف و خطر نماز کے دو رکعت بھی ادا نہیں کر سکتے خدا کے گھر تک میں بھی ان کو سکوں میسر نہیں تو گھر میں دفتر یا پارک میں کیا سکوں مل سکتا ہے …..؟ نا جانے ملک خداداد کو کس بد بخت کی نظر لگ گئی ہے۔

ملک پاکستان میں امن وامان صرف عوام کی سوچ کا محور بن کہ رہ گیا ہے۔ جہاں پاکستان میں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ جیسے بڑے بڑے جرائم نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے وہیں قتل، اغوا برائے تاوان ،بھتہ خوری، ڈکیتی، چوری جیسے جرائم بڑی تیزی سے نشو نما پا رہے ہیں جس سے پاکستانیوں کا سکون برباد ہو تا نظر آرہا ہے۔

ان وارداتوں میں روزبہ روز اضافے کا کیا سد باب ہے یہ شاید ہمارے حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے نہ سوچا ہوگا لیکن امن وسکوں کے خواہاں لوگوں کو تو رات کو کافی دیر تک نیند بھی صرف اس ہی پریشانی اورسوچ کی وجہ سے نہیں آتی ہوگی کہ آخر کیا اسباب ہیں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے …؟ میں بھی اکثر پاکستان میں جرائم کی بڑھتی واردتوں کے کیا اسباب ہیں ان کے بارے میں آپ سے بیان کرتا ہوں۔ اس سے پہلے حقیقت پر مبنی ایک مختصر واقعہ آپ سے بیان کرتا چلوں کہ گزشتہ روز میرے آبائی شہر بورے والا میں اغوا برائے تاوان کی ایک ایسی واردات ہوئی کہ جس کے مجرم کوئی پیشہ ورانہ اغوا کار نہیں تھے بلکہ اس اغوا برائے تاوان کے مجرم دو سگے بھائی جو کرکٹ کے بڑے شوقین اور اچھے کھلاڑی تھے اور علاقہ میں اپنی پہچان آپ تھے۔ انہوں نے دوران تفتیش بتا کہ ان دونوں بھائیوں نے FSc کی ہوئی ہے اور انہوں نے اغوا برائے تاوان کی واردات اس لیے کی کہ ان کے والدین ان کو پڑھا لکھا کر تنگ آ چکے تھے اور ان کے پاس مزید اتنے وسائل نہیں تھے کہ ان کو آگے پڑھا سکتے اور اب ان کو نوکری کرنے کے لیے کہتے تھے اور ان دونوں بھائیوں نے نوکری کے لیے دربے در کی خوب ٹھوکرئیں کھائیں جہاں بھی نوکری کے لیے جاتے وہی رشوت کی بات ہوتی۔

انہوں نے تھک ہار کے فیصلہ کیا کہ ہم دل لگا کر کرکٹ کھیلتے ہیں خدا کرے کرکٹ ٹیم میں ہی شامل ہو جاہیں گے دونوں بھائیوں نے خوب محنت کی اور اپنے کوچ اور کپتان کے دل جیت لیے لیکن جب موقع انڈر 19 کی سلیکشن کا آیا تو سلیکٹررز نے بھی وہ ہی بات کر دکھائی کہ آپ دس لا کھ روپے دو تو آپ کو صرف کھیلنے کا ایک موقع دیا جائے گا مگر جب آخری امید بھی پوری نہ ہوسکی تو پریشان گھرمیں بیٹھے بھائیوں نے سوچا کیوں نہ ایک کام کیا جائے اور ہمسائیوں کا بچہ اغوا کیا جائے اور تاوان طلب کیا جائے اس تاوان کی رقم سے ہم رشوت دے کر سلیکٹ ہو جائیں گے اور کامیاب ہو جائیں گے لیکن ہم ایسا کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے اور گرفتار ہو گئے۔

Pakistan

Pakistan

بہر حال بعد میں کیا ہوا پتہ نہیں لیکن اس سارے واقعہ کے بعد آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جرم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کہ آخر کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ صرف یہ ایک ہی واقعہ نہیں ہے بلکہ آپ کئی ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملیں گئے جہاں لوگ صرف بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر کوئی نہ کوئی ایسا قدم اُٹھا لیتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مجرم بن جاتے ہیں پاکستان کیا دنیا بھر میں آپ کو کئی ایسے لوگ ملیں گے جو صرف بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے تنگ آ کر کوئی جرم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جرم کی داستانیں وہیں بڑھا کرتی ہیں جہاں عدالت انصاف کرنا چھورڑ دیں بے روزگاری اور غربت اپنے ڈیرے ڈال لیں۔ آج پاکستان میںبھی یہ ہی صورت حال ہے 43% لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تقریبا% 17 لوگ بے روزگار ہیںاور انصاف نام کی کوئی چیزپاکستان میں موجود نہیں۔ نہ ہی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں نہ ہی کوئی نوکری نہ کوئی داخلہ کو ئی چیز میرٹ پر نہیں موجود جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون ہے۔ اس قسم کی صورت حال کے ہوتے ہوئے کیا پاکستان میں جرائم کم ہو نگے؟ یقینا نہیں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ روزگار کا نہ ہونا یا انصاف کی عدم دستیابی ہے۔

جب لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، روزگار نہیں ملتا تو لوگ خود بہ خود جرائم کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ جب انسان کو پیٹ بھرنے کے لیے کوئی باعزت ذریعہ روزگار نہیں ملتا تو جرائم کرنا میرے خیال میں مجبوری بن جاتی ہے آخر بھوکا بھی نہیں مر جاتا ۔بے روزگا یا تو خود کا دشمن بن جاتا یا دوسروں کا جو کسی کی زندگی خراب نہیں کرتا کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا وہ خود کو ہی عبرت کا نشان بنا ڈالتا ہے۔ پاکستان میں اکثر ایسے واقعات ٹی وی چینلز اور اخبارات کی زینت بنے نظر آتے ہیں کہ فلاں جگہ فلاں شخص نے غربت سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔

بعض اوقات موت کو گلے لگانے سے پہلے وہ شخص اپنے گھر کے باقی افراد کو بھی سکھ کی نیند سُلا دیتا ہے کیونکہ اُس کو پتہ ہے کہ میرے ہو تے ہوئے یہ بھوکے مر رہے ہیں تو میرے بعد یہ کیا کرئیں گے۔ پاکستان میں اس وقت تک جرائم قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک ملک سے غربت، روزگاری اور نا انصافی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا یہ ہی ہمارے ملک میں بڑھنے والے جرائم کی جڑ ہیں۔ اس قسم کی صورت حال کے ذمہ دار حکمران ہیں جن ک صرف اقتدار کا نشہ ہے جو قوم کے لیے کچھ کرنا نہیں چاہتے۔

میں حکمرانوں سے اپیل ہے کہ جلد از جلد بے روزگاری اور نا انصافی کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کریں تا کہ پاکستان میں روزبہ روز بڑھنے والی طلاق، قتل، خودکشی، اغوا برائے تاوان اور چوری ڈکیتی جیسی وارداتیں کم ہو سکیں اور پاکستانی عوام کو کچھ امن و سکون میسر آسکے۔

Khan Fahad Khan

Khan Fahad Khan

تحریر : خان فہد خان