مائی نیم از ملالہ اینڈ آئی ایم پاکستانی

Allha

Allha

ایک سال ہوا جب ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اس حملے میں اس کی دو اور ساتھی طالبات بھی شدید زخمی ہوئیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ملالہ کو فوری طور پر علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ کے ایک ہسپتال میں اس کا علاج کیا گیا۔ یہ سوال بار بار اٹھایا گیا کہ جب ملالہ علاج کے لئے برطانیہ جا سکتی ہے تو باقی دو کو بھی کیوں نہیں لے جایا گیا۔ انصاف کا تو تقاضہ یہ ہی تھا۔ مگر چونکہ ملالہ ایک شخصیت کے روپ میں خاص مقام حاصل کر چکی تھی اس لئے اس کو یہ سہولت فرہم کی گئی۔ جب بھی کسی اہم شخصیت پر حملہ ہوتا ہے تو دنیا کا یہ ہی دستور ہے کہ اسے اہمیت دی جاتی ہے ۔جبکہ باقی سب کے ساتھ ایک عام انسان والا برتائو کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ عمل قابل تحسین نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہی ہے۔

اس قاتلانہ حملہ کے بعد ملالہ کو بین الاقوامی شہرت کی وہ بلندی حاصل ہوئی جو آج تک کسی بھی کم عمر پاکستانی کو حاصل نہیں ہوئی ٹیلی ویژن اخبارات اور عام لوگوں کی گفتگو کا موضوع سخن ملالہ ہی ٹہری۔ اگر طالبان ملالہ پر اس طرح سے حملہ نہ کرتے تو کیا ملا لہ اتنی جلدی شہرت کی ان بلندیوں کو چھو سکتی تھی۔ گویا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے ہی ملالہ کو بین الاقوامی شہرت دلوانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے اس لئے کہ طالبان تو پہلے سے ہی بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر امریکہ کے صدر، وزیر خارجہ، میڈونا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کے علاوہ بہت سی دیگر شخصیات مذمت کرتے اور اس کے لئے خیر سگالی کا پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بہت سے لکھنے والے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا دنیا میں ہزارں لاکھوں بچے نہیں مرتے۔ کیا پاکستان میں ڈرون حملوں میں معصوم بچے اپنی جانوں سے ہاتھ نہیں دھوتے۔ کیا فلسطین ،کشمیر اور دیگر ممالک کے بچے ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ کیا اسرئیل کے مظالم جو وہ معصوم لوگوں پر کرتے ہیں ان سب کو نظر نہیں آتے۔ تو اس کا جواب یہ ہی ہے کہ دنیا کی سیاست ڈپلومیسی پر چلتی ہے۔ بعض اوقات جانتے بوجھتے ہوئے بھی حقا ئق کا سامنا نہیں کیا جاتا۔ یا اصل حقائق کو چھپا کر یک طرفہ کاروائی یا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اور یہ طریقہ ہر جگہ ہر ملک میں رائج ہے، اس لئے کہ تمام دنیا کی سیاست انصاف اور تقوی سے عاری ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد شور و غوغا کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ جہاں تک ملالہ کا تعلق ہے اس کے بیانات اور خیالات سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض علم کی روشنی کو عام کرنا چاہتی ہے اور عورتوں کے برابری کے حقوق کی حامی ہے۔

سوات میں طالبان نے ٢٠٠ سے زائد سکول گرا دیئے۔ وہاں کی عوام کو مشکلات سے دو چار کیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے۔ اور کیا اس حقیقت کو بیان کرنا پاکستان کے ساتھ دشمنی یا غداری میں شمار ہوتا ہے۔؟؟ ہمارے کتنے ہی سیاست دان ایسے ہیں اور سیاست دان ہی کیا پاکستانی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا نام بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا طالبان نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔۔؟ کیا وہ اسلام کو ایک امن پسند مذہب کے طور پر روشناس کروا رہے ہیں۔؟ ملالہ نے تو کوئی سوئس اکائنٹ نہیں کھولے۔ ملک میں کرپشن کون کرتا ہے، بجلی کا بحران کس نے پیدا کیا ہے؟؟ پاکستان کو دنیا کے کرپشن زدہ ملک کی فہرست میں ملالہ نے تو شامل نہیں کیا۔ پاکستان کے چند سادہ لوح عوام اور کچھ لکھاریوں کے پاس ایک الزام بہت آسانی سے لگانے کے لئے ہوتا ہے۔ کہ یہ سب امریکہ کروا رہا ہے۔ یا اس کے پیچھے یہودی ہاتھ ملوث ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، مگر ایسا کہنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ آخر آپ اپنے ملک میں ایسے حالات کیوں پیدا کرتے ہیں
انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں کئے جاتے۔

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

مساوات کو فروغ کیوں نہیں دیا جاتا۔۔؟ اگر ایسا ہوتا تو کوئی اپنے ملک کو چھوڑ کے کیوں جاتا، کیا پاکستان میں مذہبی، سیاسی معاشی معاشرتی اور سب سے بڑھ کر اظہار ِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ یہاں صرف ان لوگوں کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے جنکے نظریات سے یہاں کے چند کرتا دھرتا متفق ہیں۔ اگر آپ کی رائے ان کے نظریات خیالات اور احساسات سے ٹکراتی ہے تو آپ کو لبرل کہا جاتا ہے اور لبرل خیالات رکھنے والے لوگوں کو پاکستانی معاشرے کے بہت سے افراد ناپسند کرتے ہیں اور ان پر طنز کے تیر چلانے کے ساتھ ساتھ غدار وطن تک قرار پاتے ہیں۔ خیر ملالہ کا معاملہ کوئی بھی اور کیسا بھی ہو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کو بین الا قوامی طور پر خوب سراہا جارہا ہے اور اچھے معنوں میں اس کا ذکر ہو رہا ہے کسی چور ڈاکو سمگلر یا کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس نے یہ شہرت حاصل نہیں کی۔ ملالہ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اس سلسلے میں نت نئے مضامین اور تحقیقات بھی جنم لے رہی ہیں۔

جیسا کہ روزنامہ ڈان کے ایک رپورٹر نے تو ملالہ کی بچپن کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی ہے کہ ملالہ کا اصل نام جین ہے اس کا عیسائی فیملی سے تعلق ہے وغیرہ وغیرہ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے مگر ہمارے ملک کے کچھ لوگوں کا اس بارے میں ایک افسوس ناک رویہ یہ بھی ہے کہ ملالہ سے متعلق اچھی زبان کا استعمال نہیں کیا جاتا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں، جیساکہ ایک رائٹر نے لکھا کہ میڈیا پر اس کو اتنی کوریج ملی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کے اپنے ہی اتنے مسئلے ہیں کہ وہ اس سے تنگ آگئے ہیں۔ ملالہ سے، نفرت کرنے کی یہ وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں کہ اپنے بچوں کو پڑھاتے وقت ملالہ کی مثال دیتے ہیں کہ دیکھا صرف تعلیم کی وجہ سے یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور تم سے ٹھیک طرح پڑھائی نہیں ہوتی۔۔ مگر جب فیس بک پر بیٹھتے ہیں تو اسی ملالہ کو گالیوں سے بھی نوازتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا یہ دہرا معیار ہر جگہ ہی ہے۔ اس لئے اس میں حیرت کی اور میں نہ مانوں والی کوئی بات نہیں ہے۔ ملالہ پاکستان آنا چاہتی ہے اور یہاں کی سیاست میں حصہ بھی لینا چاہتی ہے، مگر طالبان دوبارہ حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور پھر ایک طبقہ اس کی مخالفت کر رہا ہے ان کو یہاں کے کرپٹ، دہری شہریت والے، ملک کو لوٹ کے کھانے والے، وعدہ خلافی کرنے والے سیاست دان تو قبول ہیں مگر ان کو ملالہ قبول نہیں۔ اس میں سے ایک طبقہ پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان میں اس طرح سے تفریق کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ظالمان ہیں اور ایک مہربان ہیں زرا ان قدردان حضرات سے کوئی یہ پوچھیں کہ طالبان میں یہ فرق کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ان کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ پھر کیوں ان کے لئے ہمدردی کے جزبات پیدا کئے جا رہے ہیں ان کے صبر اور قناعت کی مثالیں دی جاتی ہیں ابھی خبر آئی تھی کہ دونوں طرح کے طالبانوں میں لڑائی ہوئی جس سے کافی جانی و مالی نقصان بھی ہوا ہے۔

خبر تو یہ بھی ہے کہ ملالہ کو نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جا رہا ہے، جبکہ ملالہ کا کہنا ہے کہ اس نے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ وہ اس بڑے انعام کی حقدار ٹھہرے۔ علم کی اہمیت اور عورتوں کے حقوق کا پر چار کرنا یقینا ایک بڑا کام ہے۔ مگر یہ بات بھی درست ہے کہ ابھی ملالہ کو بہت کام کرنا ہے۔ اگر ملالہ کو نوبل انعام ملتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کے ایک مایہ ناز سائینسدان ڈاکٹر عبد السلام کو فزکس میں نوبل انعام مل چکا ہے۔ اور وہ پہلے پاکستانی تھے۔ مگر پاکستانیوں نے اس گوہر نایاب کی ویسی قدر نہ کی جیسا کہ ان کا حق تھا۔ مگر پھر بھی و ہ پاکستانی ہی رہے اور پاکستان کی سر زمین میں ہی ان کی آخری آرام گاہ ہے ان کو بہت سے ممالک نے شہریت کی پیشکش کی مگر آپ نے پاکستانی کی حیثیت سے رہنا پسند کیا اب اگر ملالہ یہ اعزاز حاصل کرتی ہے تو یہ پاکستان کے لئے ایک فخر کی بات ہوگی۔ خواہ کچھ پاکستانی اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ملالہ پاکستانی ہے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستانی ہی رہے گی۔

Maryam Samar

Maryam Samar

تحریر : مریم ثمر