کروڑ لعل عیسن کے مسائل

Welfare Projects

Welfare Projects

ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن اور سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ کے درمیان سیاسی رسہ کشی کے باعث بہت سے عوامی و فلاحی منصوبے جام ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان دونوں کے تنازعہ سے بیور و کریسی فائدہ اٹھا کر اپنی من مرضی سے کھیل کھیل رہی ہے۔ ملک احمد علی اولکھ کے دور میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے جن میں کالج ، سکول اور ہسپتال وغیرہ شامل ہیں لیکن 7 وزارتوں کے رش میں ان کے دور میں کرپشن اور ترقیاتی کاموں میں غیرمیعاری میٹریل کے استعمال پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔

موجودہ دور میں ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن اور ملک احمد علی اولکھ کے درمیان سیاسی رسہ کشی کے باعث بہت سے عوامی و اخلاقی منصوبہ جات جام ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان سیاسی کشمکش اور تنازعے کی وجہ سے بیوروکریسی فائدہ اٹھا کر اپنی من مرضی کے کھیل کھیل رہی ہے۔ ٹی ایم اے حکام شہر کی صورتحال پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ شہر کے بہت سے وارڈز میں سٹریٹ لائٹس بند ہونے سے گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کئی کئی ماہ سے ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ورک آڈر جاری شدہ منصوبوں پر ٹھیکیدار کام نہیں کر رہے۔

ٹی ایم او کمرہ بند کر کے بیٹھا ہے۔ ٹی ایم اے کی ناقص کارکردگی کے باعث سارا شہر گندا ہو رہا ہے اور شہر میں مختلف بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری جانب پچھلے سال 2 کروڑ سے زائد لاگت سے تعمیر کی گئی 93 دکانوں میں انتہائی ناقص میٹریل استعمال کیا گیا جو تعمیر مکمل ہونے کے ساتھ ہی کریک ہو گئیں اور 6 ماہ قبل آنے والے طوفان میں مارکیٹ چھتوں کے بنیر گر گئے۔ اسی طرح سڑک کی دوسری جانب 10 لاکھ روپے کی مالیت سے بنائی گئی 4 دکانوں کے قریب پانی کا ایک بڑا جوہڑ لگا ہوا ہے جس کے باعث ایک سال قبل تعمیر کی گئی دکانوں کی بنیادیں بیٹھنے سے ان میں دراڑیں پڑنے لگیں۔

ٹی ایم اے حکام شہر میں صفائی ستھرائی کے کاموں پر بالکل توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے پڑے ہیں اور گندے پانی کے تالاب بن چکے ہیں جن سے شہر گندہ اور مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ ٹی ایم اے میں لائبریری کا نظام درھم برہم۔ پارکوں کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ انجینئرنگ برانچ میں کرپش اور رشوت کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث تعمیراتی کاموں کا میعار گر چکا ہے۔ نقشہ برانچ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پچھلے سال کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی 93 دکانوں میں اتنا ناقص میٹریل استعمال کیا گیا کہ دکانیں تعمیر ہونے سے قبل ہی کریک ہونا شروع ہو گئیں۔ اور کچھ عرصہ قبل آنے والے ایک طوفان میں دکانوں کی چھتوں کے بنیر گر گئے۔ محال ہی میں تعمیر کیا گیا مسافر خانے میں ناقص مٹیریل کے باعث دراڑیں پڑ چکی ہیں اور صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ پورے بس اسٹینڈ میں شدید گرمی کے باعث بلدیہ ( ٹی ایم اے ) کی جانب سے واٹر ٹینک اور موٹر ہونے کے باوجود پینے کے پانی کیلئے کوئی کنیکشن موجود نہیں۔ جس کے باعث ناصرف دکاندروں بلکہ مسافروں کو بھی پینے کا پانی میسر نہیں۔ جو کہ انتظامیہ کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ تمام نقائص معلوم ہونے کے باجود انتظامیہ خواب خرگوش میں سوئی ہوئی ہے۔

Crore Lal Essan

Crore Lal Essan

ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن کی گرانٹ سے 5 کروڑ روپے کی مالیت سے تحصیل ہیدکواٹر ہسپتال میں ایک بڑا ایمرجنسی وارڈ اور آپریشن تھیٹر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث حادثات، ناگہانی آفات سے زخمی مریضوں جنہیں جگہ نہ ہونے کے باعث فوری طور پر لیہ ریفر کر دیا جاتا تھاکیلئے جگہ میسر ہو گی۔ لیکن محکمہ بلڈنگ کے زیر کنٹرول تعمیر ہونے والی بلڈنگ میں بھی ناقص میٹریل کے استعمال کی اطلاع ہے۔ محکمہ واپڈا میں کرپشن کی انتہا اور رشوت کا دور دورہ۔ کسی شہری کا کام رشوت کے بغیر نہیں کیا جاتا۔

عوام محکمہ واپڈا کی کارکردگی سے مایوس، لوڈشیڈنگ کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ واپڈا میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ شہریوں کا کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں کیا جاتا۔ اور جو رشوت نہیں دیتا اسے مختلف ہتھکنڈوں سے تنگ کیا جاتا ہے اور اس کا کام بھی نہیں کیا جاتا۔ عوام محکمہ واپڈا سے بے حد مایوس ہو چکے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ آئے روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ب فارم کے نام پر تعلیمی اداروں میں طلباء کے داخلوں کیلئے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں بچوں کے انداراج کے بہت سے مسائل ہیں۔ اور نادرا کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ یونین کونسل سے اندراج سرٹیفکیٹ کے کر آئیں۔ اور یوں داخلوں کیلئے لوگ دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ نادرا حکام کو ہدایت جاری کرے کہ شناختی کارڈ پر ب فارم جاری کیا جائے۔ محکمہ ریونیو میں کرپشن عروج پر ہے۔ بغیر رشوت اور سفارش کے نہ کوئی انتقال پاس ہوتا ہے اور نہ ہی رجسٹری پاس کی جاتی ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی محکمہ بلا وجہ اعتراض لگا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فتحپور کے علاقہ کے ایک انتقال میں سائل ایک ماہ تک تحصیلدار اور پٹواری کے پیچھے پھرتا رہا لیکن اسے مختلف اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا جاتا۔ بالآخر پٹواری نے 70 ہزار روپے لے کر پاس کیا۔

سبزی منڈی کروڑ 20 سال سے غیر سرکاری جگہ پر کام کر رہی ہے۔ جہاں پر ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں۔ بارشوں کے باعث یہاں پر چلنا پھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے آج تک نہ تو سیوریج ڈالی گئی۔ نہ کوئی سڑک بنائی کگئی اور نہ ہی سٹریٹ لائٹ کا انتظام کیا گیا۔ حتیٰ کہ پانی کی موٹر اور واٹر کولر بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ مارکیٹ کمیٹی نے 4 کروڑ روپے کی لاگت سے سبزی اور غلہ منڈی کیلئے جگہ خرید کی ہوئی ہے لیکن وکلاء نے اس زمین پر قبضہ دکھا کر بلا جواز حکم امتنائی حاصل کر رکھا ہے۔

سبزی منڈی کے آڑھتیوں نے متعدد بار مارکیٹ و ضلع کی انتظامیہ کو اطلاع دی لیکن پوری انتظامیہ وکلاء کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ علاوہ ازیں کروڑ وں روپے کی لاگت سے بائی پاس کالج روڈ پر بنائی گئی کامرس کالج کی بلڈنگ گزشتہ 2 سال سے ویران پڑی ہے اور کامرس کالج کو محکمہ صحت کی چھوٹےٰ سی بلڈنگ میں چلایا جا رہا ہے۔

کروڑ لعل عیسن کے عوامی سماجی حلقوں اور طلاء نے متعدد بار اعلیٰ حکام کو اطلاع بھی دی لیکن بوجوع آج تک کامرس کالج کو اس کی اصل بلڈنگ میں شفٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔ اطلاع کے مطابق مسلم لیگی ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن جو کہ صوبے کے آنریری چیف ایگزیکٹو حمزہ شہباز شریف کے زیر آداب ہیں جو کہ اپنے ہی ایم این اے جنہوں نے 1 لاکھ 22 ہزار ووٹ لیکر 42 ہزار ووٹ کی لیڈ سے سابق وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سردار بہادر خان کو شکست دی تھی کے ساتھ اس طرح کے سلوک سے کارکنوں میں مایوسی پھیلی ہے اور جس کا نقصان آنے والے الیکشن میں میاں برادران کو بھگتنا پڑے گا۔ کیونکہ صاحبزادہ فیض الحسن کے علاوہ مسلم لیگ ن کے پاس ایم این اے کیلئے کوئی امیدوار نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے صاحبزادہ فیض الحسن آئندہ الیکشن پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے ہیں۔

Tariq Pahar

Tariq Pahar

تحریر : طارق پہاڑ