ڈی سی او کا احسان سیاستدان پر ڈاکٹر قربان؟

Election

Election

پاکستانی تاریخ میں جِتنے بھی الیکشن ہوئے ہر الیکشن میں ہر سیاستدان تھانہ کچہری کی سیاست کے خاتمہ کے دعوے کرکے ووٹ تو لے گیا مگر سیاست کا مرکز ہمیشہ سے تھانہ تھانے ہی رہے ہیں کیوں کہ تھانہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سائل کو اِیسے دیکھا جاتا ہے۔

جیسے قصاب جانور کو دیکھتے یعنی کہ سچ اور جھوٹ کی بجائے روپے پیسے یا مدعی کے اِختیارات کو دیکھا جاتا زیادہ عرصہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کُچھ ہی یوم قبل ازیںجنوبی پنجاب میں واقع ضلع پاکپتن کے تھانہ ملکہ ہانس میں ایک میڈیکل آفیسر کے خلاف درج ہوئی جو میرے پاس بذریعہ ای میل پہنچی جِس کے ساتھ ایک میپکو رپورٹ بھی تھی۔

اب سب سے پہلے تو میں اِنچارج فیڈرایم اقبال بھٹی کی جانب سے ڈی سی او پاکپتن کو کی جانے والی اِس میپکورپورٹ اکاونٹ نمبری 07-15525-0380100کا متن عرض کر تا ہوں پھر ایف آئی آر اور اُس کے بعد اِصل کہانی، رپورٹ میں فیڈر انچارج کا موقف تھا کہ: 15/06/2013کی شام مُجھے میرے ایکسین واپڈا پاکپتن نے فون کیا کہ ڈی سی او پاکپتن اِس وقت آر ایچ سی ملکہ ہانس موجود ہیں آپ وہاں جائیں،

جَب میں وہاں پہنچا تو ڈی سی او نے اپنے دو ملازمین میرے ساتھ بھیجتے ہوئے مُجھے حکم دیا کہ ڈاکٹر کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف جاتی ہوئی اِس تار کو چیک کریںمیں نے تار کی چیکنگ کے دوران تار ہسپتال کے بجلی میٹر سے لگی پائی جِس سے واپڈا کا کوئی نقصان نہ ہورہا تھا۔

کیونکہ بِل ہسپتال کے کھاتہ سے ادا ہورہا ہے لہذا مناسب کاروائی کیلئے رپورٹ حاضر ہے، اب بات کرتے ہیں الیکٹرک سِٹی ایکٹ 39/Aکے تحت ڈی او ہیلتھ پاکپتن ڈاکٹر عبدلعزیز کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر نمبری202/13کی جِس کی تحریریہ ہے کہ: میں آج مورخہ 15/06/2013کی شام برائے معائنہ آر ایچ سی ملکہ ہانس پہنچادوران انسپکشن معلوم ہواتو مشاہدہ کرنے پرپتہ چلاکہ ہسپتال ہذا کے میٹرسے میڈیکل آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ کو بجلی کی سپلائی بذریعہ غیر قانونی تار ہو رہی ہے جِس کی رپورٹ میپکو ملازم نے بھی کی ہے لہذا رپورٹ کی روشنی میں ضابطہ کی کاروائی کی جائے ،

رہی بات اس کیس کے جھوٹے یا سچے ہونے کی تو میرے خیال میںیہ رپورٹ اور ایف آئی آر پڑھنے کے بعد صحیح حقائق تک پہنچنے کیلئے مزید کِسی انویسٹی گیشن کی کوئی ضروت باقی نہیں رہتی کیونکہ اِس کیس میں واپڈا رپورٹ کے مطابق بجلی چوری کی شکایت کِسی مقامی باسی مخبر کی جانب سے میپکو کے ٹال فری نمبر 080084338پر کرنے کی بجائے ضلع کا ایک ذمہ دار آفیسر ڈائریکٹ ایکسین واپڈا کو کر رہا ہے؟ پھِرتار کی چیکنگ کیلئے فیڈر انچارج کے ساتھ ڈی سی او اپنے دو بندے بھیج رہا ہے۔

Wapda

Wapda

جیسے تار کی بجائے کوئی گائے بھینس چیک کرنی ہو دوسری اہم بات یہ ہے کہ فیڈر اِنچارج نے اپنی رپورٹ میںتار کو بجلی کی سپلائی ہسپتال کے میٹر سے ہونے کی تو تصدیق کر دی مگر یہ تصدیق نہیں کی کہ ہسپتال کے میٹر سے اِس تار کے ذریعے آنے والی بجلی ہسپال کی سٹریٹ لاٹ پر صرف ہو رہی ہے یا اِس سرکاری رہائش گا کے اندر؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تار کی چیکنگ کے بعد فیڈر انچارج جب اپنی رپورٹ میں ڈی سی او سے یہ کہہ کر مقدمہ کی مدعیت اختیار کرنے سے انکار کر دیا کہ واپڈا کی بجلی چوری نہیں ہورہی۔

لہذا مناسب کاروائی کیلئے رپورٹ حاضر ہے تب ڈی او ہیلتھ کا ذِکر شروع ہورہا ہے جِس کے بعد مقدمہ کے اندراج کیلئے تھانہ مہتمم کو دی جانے والی تحریری درخواست میں ایک موقف وہ بھی اختیار نہیں کر سکا، جیسا کہ اپنے پہلے جملے میں تو وہ کہہ رہا ہے کہ دورانِ انسپکشن مُجھے معلوم ہوا کہ یہاں یہ ۔ہو رہا ہے اور آخری جملہ میں رپورٹ کے مطابق کاروائی کیئے جانے کی استد عا کر رہاہے،اگروقوعہ سچا ہوتوخود اِختیارات رکھنے کے باوجود رپورٹ کی روشنی میں فوجداری کاروائی کی اِستدعا کرنے کی ضرورت کبھی پیش آتی۔

سب سے پہلے وہ اپنی محکمانہ کاروائی کرتا اور الزام ثابت ہونے کے بعد اِس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لاتا، خیر کیس کے پسِ پردہ حقیقت تک پہنچنے کیلئے میں نے مدعی مقدمہ مذکور سے بھی رابطہ کیا تاکہ کالم کی اشاعت کے بعد مُجھے کوئی یہ الزام نہ دے کہ اِس نے یکطرفہ لَکھ دیا مگر افسوس کہ یہی سوالات جَب میں نے اُن سے کئے تو اُنہوں نے مُجھے تفصیلاً بریف کرنے کی بجائے بڑا مُختصر سا جواب دے دیا کہ جِتنے منع اُتنی باتیں، میں نہیں جانتا کہ میرے اِختیار میں کیا ہے اور کیا نہیں میں نے کُچھ دیکھا تھایا نہیں مُجھے جوحکم مِلا سو میں نے کر دیا،

اِس سے ظاہرہوتاہے کہ اُس نے واقع ہی کُچھ نہیں دیکھا اُس نے جو بھی کیا یا کرنا پڑا یا حقائق سے ہٹ کر صرف اور صرف اُسے ڈی سی او کے دبائو کی وجہ سے کرنا پڑا اور ڈی سی او کی بھی ڈاکٹر مذکورسے کوئی ذاتی رنجش تو ہو نہیں سکتی اِس لئے اُس نے بھی یہ کارنامہ کِسی ایسے سیاستدان کی خاطر ہی کیا ہوگاجِسے اِس نے کوئی غیر قانونی کام نہ دیا ہوگا۔

جو ایک عبوری حکومت کے تعینات کئے گئے ڈی سی او نے جمہوری حکومت کے دور حکومت میں کیالہذا عوام کی نظر میںاِس کارنامے کی ذمہ داری بھی جمہوری حکومت پر ہی پڑے گی (یعنی کہ بوئے کوئی اور کاٹے گاکوئی)جِس سے بچنے کیلئے اگر اِس حکومت نے بھی ان تھانہ کچہری کی سیاست کو فروغ دینے والے کرپٹ عناصر کا خا تمہ جڑ سے کرنے کی بجائے تبادلوں تک ہی محدود رکھا تو جِس مقام پر گُزشتہ حکومت پانچ سالوں میں پہنچی تھی یہ حکومت پانچ ماہ میں ہی پہنچ جائے گی (فی ایمان ِاللہ) ۔

Muhammad Amjad

Muhammad Amjad

تحریر: محمد امجد خان
Email:Pardahchaak@gmail.com