دہلی فسادات: کتاب کی اشاعت روکنا آزادی رائے پر حملہ؟

Protest

Protest

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) ایک معروف بھارتی پبلشر نے دہلی فسادات پر لکھی گئی ایک کتاب کی اشاعت روکنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کتاب میں دہلی فسادات میں درجنوں افراد کی ہلاکت اور تشدد کا الزام مسلم طلبہ اور سیکولر کارکنوں پر عائد کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے بھارتی اشاعتی ادارے بلومزبری انڈیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ‘دہلی فسادات 2020‘ نامی کتاب شائع نہیں کرے گا۔ رواں برس کے آغاز پر ہونے والے ان فسادات میں درجنوں افراد مارے گئے تھے اور بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا تھا۔ اس کتاب میں تاہم ان فسادات کا الزام مسلم طلبہ اور سیکولرازم کے حامی کارکنوں پر عائد کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے مصنف مونیکا اروڑا، سونالی چتلکار اور پریرنا ملہوترا ہیں۔ دہلی کے شمال مشرقی حصوں میں ہونے والے ان فسادات میں پچاس سے زائد افراد ہلاک جب کہ پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے گزشتہ جمعے کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دہلی فسادات کی تحقیقات ہونا چاہیے، تاکہ فروری کے آخر میں نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے بعد ہونے والے ان فسادات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا علم ہو۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بھارتی شاخ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اویناش کمار کے مطابق، ”ایمسنٹی انٹرنیشنل انڈیا بھارتی وزارت داخلہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ دہلی فسادات کی تفصیلی، شفاف اور غیرجانبدار تفتیش کی جائے، جس میں دہلی پولیس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مختلف سیاسی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر کے الزامات کو جانچا جائے۔‘‘

‘دہلی فسادات 2020ء، ان کہی کہانی‘ نامی کتاب کے حوالے سے اس وقت ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا جب اس کتاب کے اجراء کے حوالے سے ایک مجوزہ تقریب کے ایک پوسٹر پر حکمران بھارتیا جنتا پارٹی کے عہدیدار کاپِل مشرا کو مہان خصوصی دکھایا گیا تھا۔

ایمسنٹی انٹرنیشنل کہہ چکی ہے کہ سیاسی رہنماؤں جن میں مشرا بھی شامل تھے، نے اپنی تقاریر میں شہریت قانون پر جاری احتجاج کے دوران عوامی میں تقسیم کو ہوا دی تھی۔

واضح رہے کہ بھارتی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ برس دسمبر میں شہریت قانون کی منظور دی گئی تھی، جس میں بھارت کے ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھنے والوں کو بھارتی شہریت دینے کے لیے ضوابط آسان بنائے گئے تھے، تاہم اس قانون کا اطلاق فقط غیرمسلموں پر کیا گیا تھا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد بھارت میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔