ڈنمارک: امیگریشن کی سابق وزیر کا مواخذہ

Inger Stoejberg

Inger Stoejberg

ڈنمارک (اصل میڈیا ڈیسک) ڈنمارک کی امیگریشن امور کی سابق وزیر کو ایک عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد انہیں پارلیمان کی رکنیت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سیاسی پناہ کے متلاشی کم عمر جوڑوں کو علیحدہ کیا تھا۔

ڈنمارک کی سابق امیگریشن وزیر اینگر اسٹوجبرگ کو 21 دسمبر منگل کے روز پارلیمانکی رکنیت سے محروم کیا گیا۔ 48 سالہ اینگر کو عدالت نے سن 2016 میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے کم عمر جوڑوں کو جدا کرنے کا قصوروار قرار دیا تھا، جس کے بعد پارلیمان میں ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی۔

گزشتہ ہفتے عدالت نے اسی معاملے میں اسٹوجبرگ کو 60 دن کی قید کی سزا سنائی بھی تھی۔ حالانکہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ یہ سزا کاٹیں گی، تاہم 26 رکنی ججوں کی بینچ میں سے پچیس نے ان کے مواخذے کی حمایت کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔

سن 1995 کے بعد سے ڈنمارک میں پہلی بار مواخذے کی کارروائی کی گئی اور ملک میں ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے میں ایسا صرف چھٹی بار ہوا ہے۔ اسٹوجبرگ گزشتہ تیس برسوں کے دوران پارلیمنٹ سے خارج کی جانے والی پہلی رکن پارلیمان ہیں اور سن 1953 کے بعد سے وہ ایسی چوتھی شخصیت ہیں۔

اینگر سٹوجبرگ کون ہیں؟
اسٹوجبرگ نے اپنے آپ کو “ڈینش اقدار” کی ایک چیمپیئن کے طور پر پیش کیا ہے اور وہ ملک کی ایک بڑی مقبول سیاست دان ہیں۔ تاہم اب انہیں ایسے الزامات کا سامنا ہے کہ انہوں نے دانستہ طور پر سیاسی پناہ حاصل کرنے والے کم عمر جوڑوں کی علیحدگی کا حکم دیا تھا۔ ان کی ہدایات تھیں کہ اگر کوئی بھی لڑکی 18 برس سے کم عمر کی ہو تو انہیں ان کے ساتھیوں سے جدا کر دیا جائے۔

اسٹوجبرگ کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کر کے نوجوان لڑکیوں کی حفاظت کر رہی تھیں۔ تاہم اس معاملے میں ڈنمارک کے قوانین اور انسانی حقوق کے اداروں کا موقف ایک ہے کہ اس قانون کے نفاذ میں ہر کیس کو اس کی انفرادی میرٹ پر پرکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا اندھا دھند استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ سن 2016 میں اسٹوجبرگ نے، مجموعی طور پر، 23 جوڑوں کی علیحدگی کی نگرانی کی تھی۔

ووٹ کے دوران کیا ہوا؟
حکمراں جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے ایک ترجمان جیپی بروس نے پارلیمنٹ میں کہا، “عدالت میں محترمہ اینگر اسٹوجبرگ کو جو سزا سنائی ہے وہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔”

محترمہ اسٹوجبرگ کا تعلق لبرل پارٹی سے ہے جسے انہوں نے فروری میں چھوڑ دیا تھا۔ اس جماعت کے سربراہ بھی ان 98 ارکین پارلیمان میں شامل تھے جنہوں نے اسٹوجبرگ کئے خلاف ووٹ دیا۔ لبرل پارٹی کے سربراہ کارسٹن لوریٹزن کا کہنا تھا، “جیل کی سزا سنائے جانے کے بعد ان کا پارلیمنٹ کا رکن رہنا مناسب نہیں ہے۔”

لیکن انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی اور نیو رائٹ کے تقریبا اٹھارہ قانون ساز ان کے حامی تھے اور وہ انہیں پارلیمان سے خارج کرنے کے خلاف تھے۔

مواخذے پر اسٹوجبرگ کا رد عمل
اسٹوجبرگ نے اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد صحافیوں کے پاس اس انداز سے بات چيت کرتے ہوئے مخاطب ہوئیں جیسے انہیں پارلیمان سے زبردستی نکال دیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا، ” میرے اپنے ساتھیوں کو پارلیمنٹ سے مجھے اس طرح ووٹ کر کے باہر نہیں کرنا چاہیے تھا، کیونکہ میں نے آنکھ بند کرنے کے بجائے کچھ لڑکیوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بجائے مجھے ڈنمارک کے لوگوں کے ووٹوں سے باہر ہونے دینا چاہیے تھا۔ اسٹوجبرگ نے سن 2015 سے 2019 تک بطور امیگریشن وزیر خدمات انجام دیں۔