ترقی سے تیز رفتار

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : شاہ بانو میر

نام نہاد ادیان خود ساختہ دینی فلسفہ بیان کرتے ان کے علماء

ایسے میں نازل ہوتا ہے دنیا کا آخری پیغام حق

قرآن مجید

ان کے آباء و اجداد کی ساری تاریخ بمعہ عذاب اور جزا کے

بغیر ہچکچائے

اللہ رب العزت بے لاگ انصاف کے عین تقاضوں کے مطابق

بہترین پیرائے میں بیان فرماتے ہیں

اللہ کا کلام ہو تو

تحریر اور ترتیب میں کہیں کمی ہو نہیں سکتی

اسی لئے تو

حاسدوں نے شور مچا کر بھی دیکھ لیا

لڑائیاں لڑ کر بھی دیکھ لیا

اس کلام کو نہ روک سکے

برحق کلام ایسا اترا

کہ

اس نے نہ صرف ان کی سابقہ تاریخ

بلکہ

دیگر انبیاء علیھم الصلوة والسلام کے حالات و واقعات بیان کیے

بنی اسرائیل کے باقی ماندہ لوگ

بار بار نبی پاکﷺ کو آزمانےکیلئے کبھی

ذوالقرنین کا پوچھتے

کبھی غار والوں کا

کبھی حضرت یوسف کے برادران کا قصہ

کبھی روح کیا ہے؟

ایسا جواب وحی مبارکہ صورت اترتا

کہیں جھول نہ پاتے تھے

عرب کے نام کے ساتھ ہی

صحرا اور بدو مترادف سمجھے جاتے ہیں

کمزور معیشت اور سبزے سے عاری صحرا

جہاں کے مکینوں کا پیشہ لوٹ مار تھا

خوف الہیٰ اور رحم ان کی سرشت میں نہ تھا

مہمان نواز مشہور تھے

اسی لئے ہی تو خانہ کعبہ کے متولی بنائے گئے

بدو قرآن سے فیضیاب ہوئے تو نقشہ حیات ہی تبدیل ہوگیا

جیسے جیسے ایمان کے معجزات انہیں دکھائی دیتے

وہ ایسے حق کو تھامتے

گویا عروة الوثقیٰ ہو چمٹ جاتے

ظلم سہتے اور جان دیتے

لیکن

اسلام سے پیچھے نہ ہٹتے

غربت افلاس کا شکار اکثریتی طبقہ

شیر کی دھاڑ بن کر گونجتے

جب

معرکہ حق و باطل پیش آتا

آخر

کیا ہے اس کتاب میں

کہ

دنیا کا ہر خزانہ ہیچ ہو جاتا ہے

عیش و عشرت سے گریزاں

اپنا سارا مال

اللہ کی راہ میں لٹا کر بھی خوش ہیں

مال میرا نہیں اللہ کا دیا ہوا ہے

اسی کے بندوں پر لگانا ہے

تاکہ

آخرت میں اجر عظیم ملے

یہ وہ احساس تھا

جو کسی اعلیٰ ہستی سے واسطہ جڑ جانے کے بعد

ہر ادنیٰ انسان محسوس کرتا ہے

اللہ کا ساتھ ان کو بھاری بھرکم بنا گیا

وہ غربت میں بھی شہنشاہوں والا مزاج اور ظرف رکھتے تھے

اس طاقتور ایمان اور اسلام کو کیسے کم کیا جائے

یہ مسئلہ فاسقین کو سونے نہیں دیتا تھا

ایک بات تو پہلے سے طے تھی

کہ

یہ امت دین کے معاملے میں جزباتی ہے

جو

اہل علم اپنی رائے دلیل پر رکھتا ہے

وہ لچک نہیں رکھتا

گروہ در گروہ تقسیم ہو گئے

لیکن

مفاہمت دین پر کوئی نہ کر سکا

اپنی جگہہ اپنے علم کے مطابق

ہر ایک خود کو درست کہتا تھا

نتیجہ

حدیث کے مطابق

آج امت گروہوں میں بٹی 73 فرقے بن گئی

وہ کامیاب ہو گئے جو کہتے تھے

آپس میں لڑوا دو

لڑوا دیا

امت کمزور ہو گئی

شیطان خود یکجا رہا

وہ کمزور امت کو اپنے ارستے پر لانے کیلئے نئی چال سوچ رہا تھا

کہ

اس امت کا مزاج بدلنے کی اشد ضرورت ہے

ان کی مدد کیلئے

پیش پیش رہا

غیر ملک کے ایجنڈے کو سپورٹ کرنے والا

اور

ان سے مراعات لینے والا وہی مخصوص طبقہ

نتیجہ

ان کی نسلیں تو بیرون ملک گئیں

اور

اسی رنگ میں رنگ کر بے رنگ ہوئیں

لیکن

ان کے جاہلانہ اقدامات نے ملت کا شیرازہ بکھیر دیا

زندگی میں قرآن بند ہو گیا

نمازیں عبادت نہیں عادت رہ گئیں

جھوٹ فریب منافقت دھوکہ دہی

جیسےگھٹی میں ملی ہو

یوں

ہم کہیں کے نہ رہے

فلم ہمیں انڈین دیکھنی ہے

ڈرامہ پاکستانی

سیر دوبئی کی کرنی ہے

اور

شاپنگ شانزے لیزے سے

رہنا امریکہ

اور

موت کے بعد دفن اپنی پاک مٹی میں ہونا ہے

طاقتوروں کے ہاتھوں کھلونا بنا

یہ آج کا جوان ہے

دقیانوسی دین کہہ کر

اپنی حسین آخرت کی کامیابی کو

خود اپنے ہاتھوں برباد کر کے اسفل السافلین پہنچ گیا

یوں اپنا کھوکھلا پن

ہماری بنیادوں میں پگھلے سیسے کی طرح بھر کر

ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنا مجہول معاشرہ ہمارے ساتھ جوڑ دیا

ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں تھا

کیونکہ

اب ملک میں دکھائی دیتے ہیں

غیر ملکی اعلیٰ برانڈ

جو ہمارے احساس کمتری کو قدرے کم کر رہے تھے

گلوبل ویلج کے

اس کھیل کے فائدے تو گنے چنے لوگ ہی اٹھا سکے

لیکن

ترقی کا تیز رفتار سفر

ہمیں عبرت دلانا چاہتا تھا

سزا دینا چاہتا تھا

اپنے اصل سے غداری کی سزا

جو بہت بھیانک ملی

گلوبل ویلج کا ہم بھی حصہ بن گئے

تیز رفتار ترقی کے حصول کیلئے

ترقی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سزا ہمیں ملی

ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک

“” کرونا””

نے تیز رفتار جہازوں پر طے کر کے

اس جھوٹی غیر حقیقی ترقی پر

آسمانی نا پسندیدگی کی مہر لگا دی

ایسا خاموش قہر ٹوٹا

سب کو مریض بنا کر

گلوبل ویلج کو یکساں پریشانی اور خوف دے دیا

آج کشمیر بوسینیا فلسطین عراق افغانستان

امریکہ روس بھارت فرانس جرمنی انگلینڈ

سب کے سب

ایک جیسے خوف کا اور بیماری کا شکار ہیں

گلوبل ویلج میں شامل ہونے کے

ثمرات کے بعد اب ان مضمرات کو بھی بھگتیں

ذرا سوچیں

سب کے سب قطار ِخوف میں تھر تھر کھڑے کانپ رہے ہیں

سوچیں

کشمیر کا درد آج سب نے ہی محسوس کیا ہوگا

لاک ڈاؤن زندہ انسانوں کے ساتھ ہوتا کیسے ہے؟

کیا دلوں پر گزرتی ہے

جب انسان گھروں کے پنجرے میں قید کر دیے جائیں

معصوم بچے بوڑھے

سب کے سب سفاکی کی بھینٹ چڑہائے جائیں

جواب آسمان سے آیا ہے

جیسے قرآن بیان کرتا ہے

قوم نوحؑ

قوم ھود

قوم ثمود

قوم لوط

قوم شعیب

ایکہ والے

کسی پر چنگھاڑ آئی کہیں متواتر بارشیں ان کی غرقابی تک

کہیں

زلزلہ

کہیں نوکدار پتھریلے پتھر تھے

لیکن

یہ عذاب خاموش عذاب ہے

اب گلوبل ویلج میں شامل ہو کر

اپنا الگ تشخص ختم کرنے والے پشیمان ہیں

اللہ اکبر

آج کوئی ہتھیار نہیں اٹھا

عالمی خطے میں کوئی کشیدگی نہیں پھیلی

لیکن

اموات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے

آسمان کا فیصلہ آئے تو زمین والے کچھ نہیں کر سکتے

رو گردانی قرآن سے

انحراف

اللہ کے احکامات سے

نتیجہ

معاشرہ روبہ زوال

قیامت سے پہلے قیامت

خاموش صور

کرونا کی صورت ایسا ہر سمت سنائی دے رہا ہے

کہ

کیا ہی قیامت کا شور ہوگا

جو اس وقت دنیا پے چھا رہا ہے

کہیں

کوئی گرا کوئی تڑپا اور ساکت ہو گیا

یہ کیا ہے؟

عذاب ؟

تو بچنا کیسے ہے؟

اللہ کو منا کر اس سے بچا جا سکتا ہے

خطاؤں پر شرمساری سے

توبہ استغفار کی تکرار سے

آنسوؤں کی پروئی لڑیاں ہوں

یا ربی یا ربی کی صدائیں ہوں

تو

وہ اتنے پیارسے میرا بندہ کہنے والا

رب

کیسے نہیں مانے گا

اخلاص کے ساتھ ریاکاری سے مصفّاہو کر

جھک جائیں

مان جائیں ہر گناہ کو

ہر غلطی کو

ہر حسد کو ہر جلن کو

ہر ہار کو جیت میں بدلنے کیلئے جو جو کیا

کسی کو پتہ نہ ہو

اس سچے رب کو دلوں میں چھپے بھید پتہ ہیں

اس کے آگے اب سچ بول کر

توبہ استغفار کر لیں

منا لیں

ورنہ ہو سکتا ہے

کہ

لکھنے والے ہاتھ کب کہاں ساکت ہو جائیں

اور

پڑہنے والی نگاہیں کس وقت پتھرا جائیں

کوئی نہیں جانتا

آج ہم ہیں

کل

تھے

بھی ہو سکتے ہیں

اس سے پہلے

آئیے

استغفار کا آغاز کر کے بچ جائیں

ترقی سے تیز رفتار کرونا سے

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر