آمریت سے بغاوت کرنے والوں کو سلام

Pakistan

Pakistan

پاکستان کی 65 سالہ سیاسی تاریخ میں صرف تین کردار ایسے ہیں جنہوں نے آمریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریزہونے سے انکار کر دیا تھا ورنہ کوئی اسلام کے نام پر حکومت کا حصہ بن گیا۔۔۔تو کسی نے جمہوریت کو فروغ دینے کے چکر میں وزارتیں قبول کر لیں۔یا۔کوئی مفاہمتی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا لیکن جھنڈے والی گاڑی ہی مقصود ِ آرزو تھا آمریت کو للکارنے والے ان تین سیاستدانوں فضل حسین راہی، غلام حیدر وائیں اور مخدوم جا وید ہاشمی کو آج بھی جمہوریت کی آبرو کہا جا سکتا ہے جب بھی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ڈکٹیٹروں سے مفاہمت کے نام پر مل مکا کرنے والوں کا تذکرہ ہوگا وہاں یقینا ان تینوں سیاستدانوں کو لوگ عقیدت سے سیلوٹ بھی کریں گے۔

مفاہمت نہ سیکھا جبرِ ناروا سے مجھے
سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے فضل حسین راہی کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے تھا وہ جھنگ بازار کے قریب قلفہ بیچا کرتے تھے ذہین ، فطین ۔۔۔بہترین شاعر اور اس سے اچھے انسان۔۔ان کا بنیادی طور پر تعلق پیپلز پارٹی سے تھاوہ فیصل آبادکی ایک ممتاز شخصیت کو شکست دے کر کونسلر منتخب ہوئے پھر انہوں نے 1985 کے غیر جماعتی عام انتخابات میں بڑے مارجن MPA منتخب ہو کر سیاسی بزرجمہروں کو چونکا دیا فضل حسین راہی کی شہرت کا سبب دو باتیں بنیں غالبا ً وہ پنجاب اسمبلی کے پہلے ممبر تھے جنہوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کے حق کیلئے اسمبلی فلورپر آواز بلند کی۔

دوسرا جب صدر ضیاء الحق مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے آئے تو یہ فضل حسین راہی ہی تھے جنہوں نے ایک ڈکٹیٹر کو اس کے منہ پر للکارتے ہوئے کہا تھا ”تمہاری وردی سے مجھے بھٹو کے خون کی بو آرہی ہے” شنید ہے اس اجلاس کے بعد فضل حسین راہی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں خود کو جمہوریت کی علمبردار بلکہ چمپئن سمجھنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے فضل حسین راہی کو ٹکٹ تک نہ دیا جمہوریت اور سیاست کیلئے قربانیاں دینے والوں کا شاید یہی انجام ہوتا ہے۔

پنجاب کے سابق وزیر ِ اعلیٰ مرحوم غلام حیدروائیں نے بلدیاتی سیاست سے اپنی عملی زندگی کاآغاز کیا آپ میاں چنوں کے پہلے وائس چیئر مین منتخب ہوئے ان کا تعلق بھی ایک غریب خاندان سے تھا کونسلر۔۔وزیر۔۔قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف اور وزیر ِ اعلیٰ پنجاب تک کے سفر میں انہوں نے کئی اچھی مثالیں قائم کیں انکا اپنا ذاتی مکان تک نہیں تھا ان کی بیوہ محترمہ مجیدہ وائیں دو بار ایم این اے بننے کے باوجود آج بھی اپنے والدین کے مکان میں رہائش پذیرہیں۔۔جب صدر ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو یک جنبش قلم ختم کیا تو غلام حیدر وائیں نے اس اقدام کو پسند نہ کیا۔۔

Punjab

Punjab

ان کو پنجاب کی وزارت ِ اعلیٰ کی پیش کش کی کئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا لوگ چھوٹے چھوٹے عہدوں کیلئے ہر قسم کی اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں لیکن غلام حیدر وائیں نے یہ پیشکش قبول نہ کی بعدازاں انہیں میاں نواز شریف نے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران وزیر ِ اعلیٰ بنوایا پاکستان میں غلام حیدر وائیں جیسے ایک عام اور غریب آدمی کا سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر ِ اعلیٰ بننا پہلی اور شاید آخری مثال ہے۔۔۔

ساری زندگی ایک بھی الیکشن نہ ہارنے والا کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا سیاست اور جمہوریت کیلئے غلام حیدر وائیں کی بہت سی خدمات ہیں مسلم لیگ ن کو قریہ قریہ گائوں، گائوں منظم، فعال اور متحرک کرنے کیلئے پرائمری سطح تک تنظیم سازی مرحوم کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ڈکٹیٹر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر استقامت سے ڈٹ جانے والی تیسری شخصیت مخدوم جاوید ہاشمی کو کون نہیں جانتا۔

پرویز مشرف کی چھتری تلے قائم ہونے والی ق لیگ کے دور ِ حکومت میں مخدوم جاوید ہاشمی کو غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا اور ”بغاوت ” کے الزام میں کئی سال قید و بندکی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انہوںنے آمریت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جیل کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی کی لکھی کتاب ”میں باغی ہوں” نے بہت شہرت حاصل کی۔ دل کو یقین ہے ایک نہ ایک دن یقینا جمہوریت کی سربلندی کیلئے ان کی قربانیوں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے جب زرداری گورنمنٹ میں وزارتیں لینے کا فیصلہ کیا تو مخدوم جاوید ہاشمی واحد سیاستدان تھے جنہوں نے کسی بھی اندازمیں جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا اور اصولوں کی خاطر وفاقی وزیر بننا قبول نہ کیا۔

آج کی حکمران جماعت کے کئی رہنمائوں نے بازوئوںپر سیاہ پٹی باندھ کر پرویز مشرف سے حلف لے لیا جو آج روز مشرف کے خلاف بیان داغ رہے ہیں سچی بات یہ ہے کہ وقت گذر جاتا ہے لیکن کردار زندہ ہمیشہ رہتا ہے یہ کردار ہی ہے جو مستقبل میں لوگوں کی رہنمائی کرتاہے اسی سے مؤرخ فیصلہ کرتے ہیں کس نے کیا فائدہ لیا۔ اور۔قربانیاں دینے والے کون ہیں؟ ۔۔۔ اپنی گراںقدر خدمات سے نئی تاریخ لکھنے اور تاریخ پر احسان رقم کرنے والوں کی چرچا کرنا ہم سب پر فرض ہے آمریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریزہونے سے انکار جرأت کا بہت بڑا اظہار ہے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے انتہائی ضروری ہے ان تمام سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں ، ججز یا دیگر شخصیات جنہوںنے ماضی میں آمریت کے خلاف مزاحمت کی، قربانیاں دیں قیدو بند کی مشکلات سے دو چارہوئے ان سب کو ہر قسم کے تعصبات اور امتیازسے بالاتر ہو کر ان کی خدمات کو قومی سطح پر تسلیم کیا جائے اوران کو مراعات، اعزازات اور تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازا جائے حکومتی سطح پر ایسا کرنے سے لوگوں کو جمہوریت سے دلی لگائو محسوس ہوگا اس اقدام سے جمہوریت مزید مضبوط ہو گی۔۔ جس کسی نے بھی ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈٹ کر جمہوریت کی بات کی، قربانیاں دی ہیں انہیں قومی ہیرو قرار دیا جائے۔

ایک اور بات آمریت کا مقابلہ کرنے والوں کی خدمات کو عام آدمی تک اجاگر کیا جائے اس کیلئے ایک قومی ادارے کے قیام ناگزیر ہے ۔۔۔اور آخری بات فضل حسین راہی، غلام حیدر وائیں اور مخدوم جا وید ہاشمی کی تصاویر پاکستان کی پانچوں صوبائی اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور سینٹ بھی آویزاں کی جائیں وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والوں کو خراج ِ تحسین پیش کیا جائے یہ بات آنے والوں کیلئے مشعل ِ راہ ثابت ہو گی آئیے ہم سب آمریت سے بغاوت کرنے والے باغیوں کو عقیدت سے سلام پیش کریں۔

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد ِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی