مسلم دنیا کی پسپائی

Nobel Prize

Nobel Prize

ارج برنارڈ شا 26 جولائی 1856ء کو آئر لینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا اور 94 سال کی زندگی گزارنے کے بعد 2 نومبر 1950ء میں فوت ہو گیا۔ جارج انیسویں اور بیسویں صدی کا بین الاقوامی سطح کا ایک مانا ہوا ڈرامہ نگار‘ ناول نویس اور پلے رائٹر تھا۔ اسکاشمار لندن سکول آف اکنامکس کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی ساری تحریریں زیادہ تر انسانوں کی سماجی مشکلات سے عبارت تھیں۔ 1925ء میں جارج برنارڈ شا کو لیٹریچر میں خدمات کی بدولت نوبل انعام ملا اور اس کے علاوہ 1938ء میں اس نے Oscar ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

جارج برنارڈ یہ انعامات لینے سے انکاری تھا اور کہتا تھا کہ مجھے کوئی پبلک آنر نہیں چاہئیے لیکن پھر اپنی زوجہ کے اصرار پر اس نے ایوارڈ تو منظور کر لئے لیکن مالی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ 1936ء میں برنارڈ شا نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا The Genuine Islam اس میں اس نے لکھا ’’میںحضرت محمدؐ کے دیئے ہوئے مذہب اسلام کو بڑا جامع سمجھتا ہوں اور اس کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہے اور ہر دور پر صادق اترتا ہے۔ میں نے حضرت محمدؐ کے حالات زندگی پڑھے ہیں، آپؐ ایک عالی شان انسان تھے ۔آپبالکل عیسائیوں کے خلاف نہ تھے بلکہ آپ تو انسانیت کی ڈھال تھے۔

میرا یقین ہے کہ اگر آج جدید دور میں آپؐ جیسا کوئی حاکم ہوتا تو وہ دنیا کے مسائل حل کر کے امن لے آتا۔ میری یہ پیشن گوئی ہے کہ حضرت محمدؐ کا مذہب مستقبل میں یورپ میں ایسا مانا جائے گا جیسا اس کی پذیرائی اب شروع ہو چکی ہے‘‘ جارج برنارڈ شا نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ ’’ اگر اگلے ایک سو سال کے بعد دنیا کے کسی مذہب کے انگلینڈ یا یورپ پر چھا جانے کے امکانات ہیں تو وہ مذہب اسلام ہی ہے۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور خصوصا سرد جنگ کے اختتام پر جب کمیونزم کے پھیلائو کے خطرات ٹل گئے تو اہل مغرب کو سب سے بڑا خطرہ مذہب اسلام ہی لگا۔

وارسا پیکٹ میں بندھے ہوئے ممالک کے بکھرنے کی دیر تھی کہ نیٹو کی توپوں کا رخ اسلامی ممالک کی طرف ہو گیا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کروسیڈ جنگوں کا ذکر چھیڑا اور کلیش آف سویلائزیشن کے تصور اجاگر ہونے شروع ہو گئے۔ مسلمان دنیا میں سب سے پہلا برج ہیڈ اسرائیل کے وجود کی شکل میں مشرق وسطی میں سامنے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک ملک نہیں بلکہ ایک اینکروچمنٹ encroachment یا تجاوز ہے۔ لیکن نقشے پر یہ نہ نظر آنے والا چھوٹا سا ملک ایک بڑے مگرمچھ کی چھوٹی سی آنکھ ثابت ہوا چونکہ مغرب اور خصوصا امریکہ نے کہا کہ اسرائیل پر حملہ امریکہ پر حملہ تصور ہو گا اور یہ کہ اسرائیل کی سلامتی امریکہ کی سلامتی کے مترادف ہے یہ اسرائیل کے لئے درندگی کرنے کا کھلا لائسنس تھا۔

United Nations

United Nations

پھر اسرائیل نے پیچھے نہیں دیکھا اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ردی کے ٹوکرے میں ڈالتے ہوئے مصر کے صحرائے سینا‘ شام کی گولان کی پہاڑیوں اور اڈوں کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ ساتھ ہی فلسطنیوں پر مظالم کی انتہا کر دی۔ اس ظلم کے نتیجے اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکہ کی غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے 19 عرب نوجوانوں نے 9/11 امریکہ کو نیو یارک کے جڑواں ٹاور گرا ڈالے چونکہ حملہ آور مسلمان بتائے گئے اسی لئے مسلمان ممالک پر جوابی حملے کا ایک معقول بہانہ مل گیا۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ عراق مکمل تباہ ہو کر ٹوٹ گیا۔ شام لہو لہو ہے۔

لبیا کے صدر کو نیٹو ہوائی حملے نے زخمی کیا اور پھر ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ مصر میں قتل و غارت ہوئی اور فوجی حکومت بحال ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو ساتھ جارحیت کرنے کی کھلی چھٹی ملی رہی۔ لبنان میں صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں پر زبردست تباہ کن حملے ہوئے۔ Jenin مہاجر کیمپ کا واقعہ ہوا 2008ء اور 2009ء میں غزہ کی پٹی پر زبردست ہوائی اور زمینی حملے ہوئے۔ 2010ء فریڈم یا لبرٹی فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج نے بے شرمی سے حملہ کیا۔ حماس کے ایک سینئر لیڈر کو دبئی میں قتل کر دیا گیا۔

ریاستی دہشتگردی کے اس سارے گھٹاٹوپ اندھیرے میں اقوام متحدہ کی قرار دادیں میڈریڈ Principles اور عرب پیس Initiative کا روڈ میپ گم ہو گیا۔ ہٹلر نے کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں سارے یہودی ہلاک کر دیتا لیکن کچھ اس لئے چھوڑے تاکہ دنیا کہ پتہ چلے کہ ان کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کتنا درست تھا۔ اب ریاسی دہشتگردی کی تازہ لہر میں 220 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطین کی طرح کشمیر بھی ایک جیل ہے ۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کی کوئی بات کرنے کو تیار نہیں مسلمان دنیا کے بڑے ممالک میں سے اب سابقہ RCD کے تین ممالک پاکستان‘ ایران‘ اور ترکی کی باری ہے۔

ہمیں ابھی کمر کس لینی چاہئیے۔ اور ان خطرات کے مقابلے کے لئے قومی یکجہتی کا بہترین نمونہ پیش کرنا چاہئیے۔ اس دفعہ 14 اگست پہلے سے بھی زیادہ جذبے سے منانا چاہئیے۔ دھرنوں اور احتجاجی سیاست کو چھوڑ کر پہلے پاکستان کے سفینے کو بھنور سے نکالنا ضروری ہے ۔دس لاکھ بے گھر ہونے والے پاکستانی بھائی ہمارے تعاون کے منتظر ہیں۔ میں نے وزیر اعظم صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں پر زیادتیوں کو بند کروانے کے لئے ہمیں مسلمان ممالک کے سربراہوں کی ایک چوٹی کی کانفرنس بھی ضرور بلانی چاہئیے تاکہ باہمی اختلافات کم کئے جائیں۔ اس کے لئے پہلے ہوم ورک کرنا ضروری ہے۔

Terrorism

Terrorism

ملک کے اندر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قوم ایک صف میں کھڑی ہو۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ افغانستان کی صورت حال پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے۔ مشرق وسطی اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ہمارے قریبی رشتے قائم ہونے چاہئیں۔
چین کے ساتھ تجارت کو مزید بڑھایا جائے اور روس کے پاکستان کی طرف حالیہ نرم رویئے کا فائدہ اٹھانا انتہائی اہم ہے۔ مسلم دنیا ہر لحاظ سے کرہ زمین پر ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ایک بڑی طاقت ہے جس کے پاس اسلام جیسا ایسا دین ہے جو آفاتی ہے۔ اسی لئے تو جارج برنارڈ شا نے کہا کہ تھا کہ ’’اگر کسی مذہب کے دنیا پر چھا جانے کے امکانات ہیں تو وہ مذہب اسلام ہے‘‘لیکن افسوس کہ مسلم دنیا آج زوال پذیر ہے اور اسلامی تعلیمات کو غیر مسلم دنیا نے اپنایا ہوا ہے۔

تحریر: لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم