جاوید چوہدری کے مخالفین کیلئے: قسط۔1

Allah

Allah

تحریر: ملک جمشید اعظم

مجھے اس بات کابخوبی اندازہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے میری قلم سے نکلے ہوئے ہرلفظ کو قارئین بہت پسندکرتے ہیں،چاہے وہ کالم کی شکل میںہویا شاعری کی صورت میںہرلفظ میرے قارئین میںبہت مقبولیت حاصل کرجاتاہے۔کیونکہ میںنے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ حق اورسچ لکھوںجبکہ غریب آدمی کی آوازبنوں۔مجھے فیس بک پیج کے ذریعے قارئین کے حوصلہ افزامیسجزملتے رہتے ہیں،سبھی میسجز میںایک سے بڑھ کرایک میری قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کوسراہاجاتاہے،(نوٹ:میںفارغ اوقات میںصرف فیس بک اورٹویٹراکائونٹ پرلوگوں کی طرف سے کئے گئے

میسجز یا کامنٹس پڑھتا ہوں، اگر کسی نے میرے کالمز کے بارے میں اپنی رائے دینی ہو تو وہ صرف ان دونوں ذرائع سے مجھ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے باقی کسی ویب سائٹ پرکئے گئے کامنٹس کونہ میں پڑھتا ہوں اور نہ ہی کوئی اپنا ٹائم ضائع کرے)۔ اب چلتا ہوں میں اپنے اصل ٹاپک کی طرف پچھلے دنوں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا میں جب بھی فیس بک پرکوئی پوسٹ شیئر کرتا اس کو ہر کوئی پسند کرتا اور اس پوسٹ پر مختلف افراد مختلف انداز میں تعریفی کامنٹس بھی کرتے تھے، لیکن ہر پوسٹ پرمجھے ایک تنقیدی میسج بھی ضرور موصول ہوتا تھا، ہر دفعہ کامنٹ کرنیوالے کا نام نیا ہوتا تھا، مگر ان تمام کامنٹس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ایک ہی آدمی مختلف نام استعمال کرکے کامنٹس کر رہا ہو۔ غصے کی بات یہ تھی کہ اس کے کامنٹس بھی کوئی تعمیری نہیں ہوتے تھے

بلکہ اس کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ پاگل پن کا مریض ہو اور کسی پاگل خانے میں بیٹھ کر کامنٹس کر رہا ہو کیونکہ اگر کسی ایک چیز کو 100 آدمی اعلیٰ کہیں اور ایک آدمی کہے کہ یہ چیز ٹھیک نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس چیز میں کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ اس ایک آدمی کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ یہ سلسلہ تقریباََ تین دنوں تک چلتا رہا، میں چاہتا تو اسے بلاک کر کے آسانی سے جان چھڑوا سکتا تھا، لیکن میںنے سوچا کیوں نہ آج اس کو سبق ہی سکھایا جائے، ذرا سوشل میڈیا اور مختلف ویب سائٹس پر نقلی نام استعمال کرکے کامنٹس کرنے والوں کو بھی پتہ چلے کہ دنیا آج چاند پر پہنچ چکی ہے اور یوں منہ پر نقاب اُوڑھ کر فضول کامنٹس کرنے کا انجام بہت برابھی ہو سکتا ہے۔

اس مقصد کیلئے میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا، جوکہ خفیہ پولیس میں آفیسر ہے( میرادل تو چاہ رہا ہے کہ میں اس کا نام یہاں پر ضرور اپنے قارئین سے شیئر کروتا کہ پاکستانی قوم یہ جان سکے کہ پاکستان کی خفیہ پولیس میں آج بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے مجرموں کو پاتال کی گہرائیوں سے نکال کر قانون کی ہتھکڑیاں پہنا سکتے ہیں، لیکن کیونکہ اس وقت وہ ایک حاضر ڈیوٹی آفیسر ہے، اسلئے قانونی تقاضوں کے مطابق اس کا نام میں اپنے کالم میں شیئر نہیں کروں گا)۔ مجھ سے پورا واقعہ سننے کے بعد اس نے کہا کہ ملک صاحب اب آپ ٹینشن فری ہو جائیں، انشااللہ وہ آدمی ایک دودن کے اندر اندر آپ کے سامنے موجود ہو گا اور پھر اس نے واقعی اپنے مختلف ذرائع سے فیس بک پر کئے گئے

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

کامنٹس کی مدد سے اس آدمی کی IP ٹریس کی اور 24 گھنٹوں سے بھی پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرلیں، میرے دوست نے جب یہ معلومات مجھے بتائیں، تو مجھ پرحیرت کے پہاڑ ٹوٹتے گئے۔یہ بات تومیرے اندازوں کے عین مطابق ثابت ہوگئی کہ وہ ایک ہی آدمی تھا، جو مختلف فیس بک اکائونٹس کے ذریعے کامنٹس کرتا تھا، لیکن مزید انکشاف یہ ہواکہ اس نے مختلف ناموں سے 25 فیس بک اکائونٹس بنائے ہوئے تھے، جن میں 10 لڑکیوں کے نام سے تھے، اسکے علاوہ اس نے 6 اکائونٹس پاکستان کی مختلف مشہور شخصیات کے نام پربنائے ہوئے تھے، ان تمام اکائونٹس کے ذریعے وہ ایسا گندہ مواد شیئر کرتا جس سے ان تمام مشہور شخصیات کا امیج عام لوگوں میں خراب ہورہا تھا، ڈاکٹر عامر لیاقت کے نام کا ایک اکائونٹ بھی اس میں شامل تھا، جس پروہ صرف گالم گلوچ والی پوسٹس ہی شیئر کرتا تھا، تاکہ عوام کے دل میں ڈاکٹر عامر لیاقت کیلئے اشتعال پیدا ہو۔

وہ لڑکا موبائیل اور لیب ٹاپ دونوں کو اپنے ان ناپاک کاموں کیلئے استعمال کرتا تھا۔ میرے دوست نے مجھے کہا کہ میں 10 جوانوں پر مشتمل ایک فورس اس کے گھر بھیجتا ہوں جو کہ اسے ابھی گرفتار کر لائے گی۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے اس لڑکے کا پتہ دو کیونکہ میں چاہتا تھا کہ فورس بھجوانے سے پہلے میں خود اس سے ایک دفعہ مل لوں، میرے دوست نے مجھے اس کا ایڈریس بتایا اور یہ کہاکہ آپ کے جانے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد میں پولیس فورس بھی بھیج دوں گا۔

اس لڑکے کا گھر جس گائوں میں تھا وہاں میرا ایک دوست بھی رہتا تھا، میں نے اس کو فون کر دیا تاکہ آسانی سے اس لڑکے کے گھر کا پتہ چلایا جاسکے۔گائوں میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے دوست کو جوکہ بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہا تھا ساتھ لیا اور ہم دونوں اس لڑکے کے گھر کی طرف جانے لگے، تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں اس کے گھرکے دروازے کے باہر کھڑے تھے میرے دوست نے ان کی ڈوربیل بجائی اور اتفاق سے وہی لڑکا باہر نکلا جوکہ ان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا کیونکہ 25 اکائونٹس میں سے ایک ایسا اکائونٹ بھی تھا جس کے بارے میں میرے پولیس والے دوست نے بتایا تھا کہ یہ اس کا اصلی اکائونٹ ہے اور اسی اکائونٹ سے حاصل کی گئی ایک تصویر میں دیکھ چکا تھا، اسلئے مجھے اس کو پہچاننے میں ذرا بھی دیرنہ لگی۔ وہ لڑکا بھی مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا

اور اس کی حالت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اچانک مجھے اپنے سامنے پاکر ڈر سا گیا ہو اور تقریباََ دو منٹ تک تو وہ بالکل سکتے میں رہا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ( چور کی ڈارھی میں تنکا)۔ مجھے اس پر غصہ تو بہت آرہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا کہ اس کو اسی وقت تھپڑدے ماروں، لیکن میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس لڑکے نے لرزتی ہوئی آواز میں ہمیں اندر آنے کو کہا جس پر میں نے صاف انکار کر دیا اور اس کو زچ کرنے کیلئے پوچھا کہ مجھے پہچانا ہے، اس نے جلدی جلدی ہاں میں سر ہلا دیا، پھر میں نے کہا کہ تم میری تحریروں پر کامنٹس بہت زیادہ کرتے ہو اور اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے ہو میں نے سوچا کیوں نہ تمہارے ساتھ ملا جائے اور مناظرہ کیا جائے

کون کتنے پانی میں ہے اور ساتھ ہی میں نے اس کو وہ مختلف نام بھی بتدیئے جن ناموں پر اس نے جعلی فیس بک اکائونٹ بنائے ہوئے تھے، جیسے ہی میری بات مکمل ہوئی اس کے تو جیسے پسینے چھوٹنے لگے، وہ اسی وقت مجھ سے معافیاں مانگے لگا اور منتیں کرنے لگا کہ جناب مجھ سے غلطی ہو گئی میری تو سات نسلوں کو بھی یہ خبر نہیں تھی، کہ آپ اس طرح میرا کھوج لگالیں گے اور یوں اچانک میرے سامنے آجائیں گے۔ مجھے اس کی حالت پر ترس آنے لگا اور میں یہ سوچنے لگا کہ کیا یہ وہی شخص میرے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے جو فیس بک پر ایسابے دھڑک ہو کر کامنٹس کرتا تھا جیسے وزیراعظم پاکستان ہو اور اسے کوئی بھی پوچھنے والانہ ہو، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرا دوسرا دوست اپنی پولیس فورس کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور اسے اپنے ساتھ تھانے لے گیا۔ باقی پولیس والے مجرم کے ساتھ جو کرتے ہیں وہ سبھی جانتے ہیں اسلئے میرا یہاں لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہےجاری ہے

Malik Jamshaid Azam

Malik Jamshaid Azam

تحریر: ملک جمشید اعظم