یہ نظام عدل ہے

Justice

Justice

تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور

انصاف اور احتساب سے راہ فرار اختیار کرنے کی دو ممکنہ و جوہات ہو سکتی ہیں، نمبر ایک آپ نے کرپشن کی ہو، اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو، قومی مفادات پر سمجھوتہ کر کے فوائد حاصل کئے ہوں، اپنے عہدے کے وقار کے بدلے جرائم پیشہ، دہشتگرد، منشیات فروش یا دیگر غیر قانونی عناصر کا ساتھ دے کر رشوت وصول کی ہو، مختصر یہ کہ آپکو مکمل یقین ہوجائے کہ آپ انصاف یااحتساب کے عمل سے بغیرسزابچ نہیں سکتے،نمبردوآپ نے کوئی غلط کام نہیں کیا پر انصاف یااحتساب کانظام اس قدرناقص ہے کہ آپ غیرجانبدرانہ تحقیقات اورانصاف کے تقاضے پورنے ہونے کی اُمید کھو دیں، دیگر صورت میں کسی بے گناہ کوانصاف یا احتساب کے عمل سے راہ فراراختیارکرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

پاکستانی عوام نے سیاسی ومارشالائی ادوارکئی باردیکھے ہیں ہردورمیں حکمران طبقے کے وہ لوگ جووقت کی اپوزیشن کاحصہ ہوتے ہیں کی چیخیں اورحکمرانوں کی بھڑکیں سنی ہیں۔مارشالاء جسے ڈکٹیٹرشپ بھی کہاجاتاہے کہ دورمیں سیاستدان جمہوریت کے نام پرلوگوں کواکھٹاکرکے طاقت کامظاہرہ کرتے ہیں جبکہ سیاسی لوگ جب اقتدارمیں ہوتے ہیں توریاست کے کسی ادارے میں جمہوریت عملی طورپرنظرنہیں آتی البتہ میں سیاستدانوں کے دورحکومت کوجمہوری نہیں سیاسی ادوارسمجھتا ہوں۔ ملک پاکستان کے اندربہت سارے سیاسی ومارشالائی ادوارگزرنے کے بعدآج بھی حکمران طبقہ انصاف اوراحتساب کے نظام پربھروسہ نہیں کرپایایہاں تک کہ اعلی عدلیہ کے جسٹس صاحبان جس نظام کے تحت لوگوں کوانصاف فراہم کرنے کے تنخواہ اوردعوے دارہیں خوداس نظام سے راہ فراراختیارکرتے نظرآتے ہیں۔سپریم کے جسٹس صاحب جس نظام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں یقینی طورپروہ اس نظام کی خامیوں اورخوبیوں سے مکمل آگاہ ہوں گے۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایک باضمیرانسان کرسی عدل پربیٹھ کرلوگوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں اس کرسی کوچھوڑکیوں نہیں سکتا؟قارئین محترم آپ جانتے ہیں کہ شریف فیملی کہتی ہے ان کیخلاف تمام مقدمات سیاسی اورجھوٹے ہیں۔آصف علی زرداری ماضی میںکئی سال جیل کاٹ کرباعزت بری ہوئے اورپھرملک کے صدربھی بنے،آج پھران کیخلاف بے شمارمقدمات قائم ہوچکے ہیں اوروہ عبوری زمانتیں لے رہے ہیں۔

آصف علی زرداری اوران کی جماعت کابھی ہمیشہ کی طرح یہی کہناہے کہ اُن کیخلاف مقدمات سیاسی اورانتقامی ہیں۔سابق آرمی چیف وسابق صدرمملکت (ر)جنرل پرویزمشرف بھی کئی مقدمات میں عدالتوں کومطلوب ہیں۔گزشتہ دنوں وکلاء اورجج صاحب کے درمیان ایک ناخوشگوارواقع پیش آیا،میڈیاکے مطابق جس میں جج صاحب زخمی ہوگئے تھے،اس کیس کاجس قدرتیزی کے ساتھ فیصلہ آیااورمعمولی چوٹ پرایک وکیل کوکئی سال قید اورجرمانے کی سزاسنائی گئی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے،وکلاء جولوگوں کوانصاف دلانے کیلئے قانونی راستے اختیارکرتے ہیں وہ بھی اس فیصلے پرشدید برہم نظرآتے ہیں،تو کیاوکلاء حضرات خوداس عدالتی نظام پریقین نہیں رکھتے جس کے تحت وہ لوگوں کوانصاف فراہم کرتے ہیں؟ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حاضرسروس جسٹس صاحب کیخلاف حکومت وقت نے مقدمہ بنایاہے توخودجسٹس صاحب نظام عدل سے راہ فراراختیارکرتے دیکھائی دیتے ہیں۔

وکلاء کاایک گروپ بھی جسٹس صاحب کے حق میں احتجاج کررہاہے۔ایسے حالات میں ہم عام عوام یہ جانناچاہتے ہیں کہ جونظام اپنے بنانے اورچلانے والوں کوانصاف فراہم نہیں کرسکتایاگرفت نہیں رکھتایاپھراُن کیلئے قابل یقین نہیں وہ نظام ہم عام عوام جن کے پاس کوئی اختیاربھی نہیں انہیں کب،کیسا اورکیونکرانصاف فراہم کرسکتاہے؟سیاستدان جمہوریت کی آڑمیں لوگوں کواکھٹاکرکے احتجاج کرلیتے ہیں جبکہ عدلیہ بچائوتحریک کے نام پرجج کیلئے وکلاء حضرات ڈھال بن جاتے پرایک عام پاکستانی کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ حکومت،عدلیہ یاکسی تحقیقاتی ادارے کیخلاف احتجاج کرسکے۔جونظام ریاست کے حکمران طبقے جس میں وزیراعظم،صدر،اعلی عدلیہ کے جج صاحبان دیگر عدلیہ،سیاستدان سرفہرست ہیں کوانصاف فراہم نہیں کرتاوہ نظام عام عوام کوکیادے گااور لگاتاررائج کیوں ہے؟ہمیں یہ سوچناپڑے گاکہ یہ نظام عدل ہے یا سنگین مذاق؟

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com..
03134237099