بولو اس کالم کو کیا نام دو

Allha

Allha

میں اپنے دوست مدثر اسماعیل بھٹی کے ہمراہ شاہ جیونہ اپنے دوست کے پاس گیا اس نے ہم کو دعوت دے رکھی تھی جب ہم وہاں پہنچے تو اس نے ہماری بڑی عزت کی اور ہم کو اپنے ساتھ اپنے ڈیرے پر لیے گیا وہاں اسے نے ہم کو کھانا کھلایا۔ اور پھر ہم لوگ باتوں میں مصروف ہوگئے میں نے اپنے دوست سے اجازت لی اور اپنے گھر کو چل پڑئے۔ کچھ دور جانے کے بعد ہماری گاری پینچر ہو گئی تو میرے دوست مدثر نے اپنے دوست کو کال کی تو وہ کچھ دیر کے بعد اپنے بیٹے اور بھانجے کے ہمراہ گاڑی پر آ گیا۔ اس نے ہم کو پانی پی لایا اور پھر گاڑی کو لے جا کر اڈئے پر سے ٹھیک کروا کر اس دوست سے اجازت لی جو بار بار اصرار کر رہا تھا کہ آج رات میرے پاس رہے جائو۔ ہم نے اس سے اجازت لی اور گھر کو نکل پڑے۔ اور خدا کا شکر ادا کیا اور اس اللہ کے نیک بندے کے لیے دل سے دعا نکل رہی تھی کہ آج بھی ایسے لوگ اس دنیا میں ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارہ رکھتے ہیں ورنہ آج کے اس دور میں وہ بندہ کہا سکتا تھا کہ میں مصروف ہو میں نہیں آسکتا یا میں گھر نہیں ہو ں وغیرہ وغیرہ لیکن وہ اللہ کا بندہ آیا۔ اس کا یہ بھی احسان ہے لیکن آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی کسی کا نہیں۔

لیکن بزرگ درست فرماتے ہے کہ ابھی اس دنیا میں اللہ کے نیک بندوں کی کوئی کمی نہیں جن کی وجہ سے ابھی بھی بھائی چارئے کی فیزا برقرار ہے آج کے اس دور میں جہاں کرپشن۔ لوٹ مار۔ چوری۔ ڈکیتی۔ راہ زانی اور جہاں حوا کی بیٹیوں کی عزت شرے عام نیلام ہو رہی ہے سکول جانے والے طالب علم سے لیکر غریب مزدور تک جو گھر سے سبزی۔ وغیرہ یا بچوں کا دودھ لینے جاتے ہے باہر جا کر پرچی جوا والوں کے پاس ڈیرہ ڈال لیتے ہیں اور ان کو نہیں معلوم کہ انہوں نے گھر کب لوٹ کر جانا ہے ان کے گھر والے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ وہ سبزی لیے کر آئے گا تو تو کھانا کھائے گئے۔ مگر ان کو کیا معلوم اس نے سبزی کے پیسوں کی پرچیاں لیکر جوا کھیل لیا اور ہار گیا۔ اور کئی اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے رو رہے ہوتے ہے اور ان کی ماں ان کو چپ کروا رہی ہوتی ہے اور بول رہی ہوتی ہے کہ ابھی دودھ لیکر آتے ہے تو آپ کو دودھ دیتی ہوں۔

جبکہ دودھ لیکر آنے والے نے تو دودھ کے پیسوں کی پرچیاں لیکر جوا کھیل ڈالا۔ نہ جانے یہ لعنت ہمارے معاشرے میں کہا سے آگئی۔ او اللہ کے بندوں ہم مسلمان ہے جوا کی اجازت ہمارا مذہب اسلام نہیں دیتا۔ یہاں چند روپوں سے اس لیے جوا کھیلتے ہیں کہ ان کا بہت بڑا انعام نکل آئے گا مگر نہ جانے کتنے اسے لوگ جو ابھی ایسی امید پر ہے جو سارا دن مزدوری کرتے ہیں اور شام کو اپنی حلال کی کمائی حرام کی راہ پر لگا دیتے ہے سارا دن کی مزدوری کی رقم سے جوا میں لگا کر ہار جاتے ہے اور منہ اٹھا کر گھر کو چل پڑتے ہیں گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے بچے بھاگ کر اس کو لیپٹ جاتے ہیں کہ ابو جان آ گے اور پھر وہ اپنے باپ سے سوال کرتے ہیں کہ ابو جان چیز لے دو۔ ابو پیسے دو مگر اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اس کی بیوی کہتی ہے کہ گھر کا سامان لے دو گھر میں کچھ بھی نہیں کھانے پینے کو۔ مگر اس کا منہ لٹکا ہوا ہوتا ہے ایک تو سارا دن مزدوری کی شام کو سارے پیسے جوا میں لگا کر گھر آ گیا۔

PTCL Net Connection

PTCL Net Connection

کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیئے رہا تو اس کی بیوی بولی خدا کے لیے کچھ لیے کر آئو گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں تو وہ اٹھ کر اپنے محلے والی دوکان پر جاتا ہے وہاں سے ادھار سامان لا کر اپنے بیوی بچوں کو دیتا ہے اس کی بیوی بولی او خدا کے بندے تو سارا دن مزدوری کرتا ہے اور شام کو اپنی حلال کی کمائی سے جوا کھیل دیتا ہے چھوڑ دے ایسے برے کام۔ اور وہ منہ لٹکائے کہتا ہے کہ میں تم لوگوں کے لیے ہی کر رہا ہوں۔ مگر ہماری قسمت ہی خراب ہے تو اس کی بیوی جو کہ اللہ کی نیک بندی بولی مزدوری کیا کرو اور اللہ سے مانگ وہ تم کو ضرور دیئے گا۔ اب جہاں بھی دیکھوں آپ کو پرچی جوا والے ٹی وی جوا گیم والے ہر جگہ نظر آئے گئے۔ او نام کے مسلمانوں تم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو لوٹ رہے ہو کچھ تو خدا کا خوف کرو آخر ایک دن مرنا ہے اور اس وقت اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے تو اس وقت کس منہ سے اس کے پاس تم جائو گئے اور اپنے رب کو کیا جواب دو گئے۔ آج اگر ہمارئے ملک کا قانون سختی کرنا شروع کر دیئے تو پرچی مافیا آپ کو کسی جگہ نظر نہیں آئے گا مگر۔

اب یہ تو ایک کاروبار لوگوں نے بنا لیا ہوا ہے اپنے کی بھائیوں کو لوٹنا۔ یہاں افسوس کے علاوہ کچھ نہیں سکتا۔ ایک اور کچھ لوگوں نے کاروبار شروع کیا ہوا ہے جو نجانے درست ہے کہ نہیں یہ آپ لوگ فیصلہ کرئے کہ آپ پی ٹی سی ایل سے نیٹ لگواتے ہیں تو تقریبا 16 سے 17 روپے ماہوار بل آتا ہے اور جبکہ اور لوگ پی ٹی سی ایل سے نیٹ لیے کر آگے سیل کر رہے ہیں وہ عوام سے 500 روپے ماہوار کنکشن دیئے رہے ہیں اس کے بارے معلوم کرنے کے لیے پی ٹی سی ایل کے آفس گئے۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے انچارج کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا ابھی آ جاتے ہے ان کے کمرئے میں ان کی جگہ کوئی اور آدمی بیٹھا ہوا تھا تو ان سے موبائل پر رابطہ کیا تو انہوں نے کہا میں ابھی آرہا ہوں آپ باہر بیٹھوں۔ تو فون بند ہونے کے بعد میں ان کے کمرے سے باہر آگیا۔ اور ان کے پی آئے والے کمرے میں بیٹھ گیا۔ وہاں کمپیوٹر پر دو بندے کام کر رہے تھے تو ان لوگوں سے پوچھا کہ جو پی ٹی سی ایل کے ملازم تھے نیٹ کے بارے کہ پرائیویٹ لوگ پی ٹی سی ایل سے کنکشن لیے کر عوام کو پانچ سو روپے فی کسٹمر دیئے رہے ہے۔

کیا یہ جائیز ہے کے نہیں انہوں نے کہا کہ ناجائز ہے ابھی بات ہو رہی تھی کہ انچارج صاحب بھی تشریف لے آئے سلام کرکے بیٹھ کر بولا جی کیا بات ہے تو ان سے سوال کیا ہم اس لیے آئے ہیں کہ یہ پرائیویٹ لوگ جو خزانہ سرکار کو کافی نقصان دیئے رہے ہے کہ چند لوگ ایسے ہے نیٹ تو آپ سے بہت عوام نے لگوا رکھا ہے مگر چند ایسے لوگ ہے جو پی ٹی سی ایل کا نیٹ لگوا کر اپنی چھتوں وغیرہ پر انٹینے لگا کر عوام میں پانچ سو روپے فی کنکشن دیئے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمارے کام ہے اپنے کسٹمر کو سروس دینا۔ جائے آپ پی ٹی اے سے رجوع کرئے ہمارے خیال میں یہاں کوئی غلط کام نہیں ہو رہا۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ ہم ہر ماہ تقریبا 16 سے 17 سو روپے بل ادا کر رہے
ہیں۔

یہ پانچ سو روپے میں کنکشن دیئے کر خزانہ سرکار کو نقصان نہیں دے رہے کیا آپ کا کسٹمر ایک کنکشن لیے کر آ گے نہ جانے کتنے لوگوں کو سیل کر رہا ہے یہ تو ان لوگوں نے کاروبار بنا رکھا ہے تو وہ بولا پہلے ایک دفعہ سب نیٹ بند کروا دیئے تھے مگر پھر ہم کو آڈار آگے کہ ان لوگوں کے کنکشن اور نیٹ چلوں کر دیئے۔ انہوں نے یہ سب آف دی ریکارڈ زبانی بات کی۔ اور میں یہی بات سن کر باہر آگیا۔ اور سوچ میں پڑ گیا کہ۔ افسوس۔ کیا ہم مسلمان ہے کیا ہم پاکستانی ہے میں یہ سوال آپ پر چھوڑتا ہوں کہ یا کاروبار کیا درست ہے ۔کیا اس سے خزانہ سرکار کا نقصان نہیں ہو رہا کیا۔ یہ فیصلہ آپ کرئے۔ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حاضر ناظر جان کر ایک مسلمان پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ابھی جاری ہے۔

Shafqat Ullah Khan Siyal

Shafqat Ullah Khan Siyal

تحریر : شفقت اللہ خان سیال