یونیورسٹیوں میں جنسی جرائم

University

University

دروازہ اندر سے بند پاکر ہم واپس چلی گئیں ۔مجھے ریسرچ کے حوالے سے کچھ سوالنامے پر کروانے تھے۔ لہذا اپنی دوست کیساتھ یونیورسٹی کے 15 ڈیپارٹمنٹس میں معزز اساتذہ سے سوالنامے پر کروانے کیلئے گئی۔ ایک ڈیپارٹمنٹ کے آفس میں جانے لگیں تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ ہم کچھ دیر بعد پھر گئیں دروازہ مستقیل بند ہی پایا۔۔۔ مجھے بے حد غصہ آیا کہ سرکاری آفس کا دروازہ ورکنگ ہائر میں کوئی کیسے بند کر سکتا ہے اور وہ بھی اندر سے۔۔۔ غصہ کیساتھ ساتھ مجھے حیرت بھی ہونے لگی کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔

آفس کے پاس کھڑے چارلڑکے نوٹس بورڈ پر کچھ دیکھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ دروازہ اندر سے کیوں بند ہے۔ ہم نے اپنے گلے میں employee cardلٹکا رکھے تھے ۔ ان سٹوڈنٹس نے ہمارے یونیورسٹی کارڈز کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ ہم یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نہیں بلکہ آفیسرز ہیں ۔۔ معلوم نہیں انھیں کوئی خوف تھا یا کوئی اور وجہ جس کے باعث وہ بتانے سے ڈر رہے تھے۔ خیر انھوں نے بتا دیا کہ میڈم اندرpresentationچل رہی ہے ۔۔ مجھے بڑا شاک لگا ۔۔۔ایسی کونسی presentationہے جو بند آفس میں لی جاتی ہے اور وہ بھی گھنٹوں سے۔۔۔ سٹوڈنٹس مسکرا کے ادھر ادھر دیکھنے لگے میری دوست مزید کچھ کہنے لگی تو میں نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا کہ سٹوڈنٹس کے سامنے کچھ بھی بولنا بیکار ہے۔۔ ہم وہاں سے چل پڑیں۔۔۔

ایک طرف گرمی اپنا جوش دکھا رہی تھی تو دوسری طرف غصہ کی وجہ سے میرا بولنے کا موڈ نہیں تھا ۔خاموشی سے سارا سفر طے کیا مگر دماغ ایک پل بھی خاموش نہ رہ سکا۔ مختلف سوچوں نے گھیرا ڈال دیا۔ تعلیمی ادارے جہاں انسانیت کا درس دینے والے انسانی درندے کا روپ دھار لیتے ہیں وہاں کیسی تعلیم کیا انسان اور کیا درس باقی رہ جاتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ درس گاہوں کو کس قد رکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اور استاد تو روحانی باپ ہوتا ہے مگر آج کے دور میں ایسی کیا اندھیر نگری ہے کہ یہ روحانی باپ روح تک کو گھائل کر جا تاہے۔

تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو کبھی نہیں چھینا جا سکتا ہے اور اسلام میں بھی تعلیم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پرفرض ہے۔مگر آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں والدین اپنی بچیوں کو سکول، کالجز، یونیورسٹیوں میں بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو جنسی طو رپر ہراساں کرنا تو روز کا معمول بنا گیا ہے ایسے واقعات سے اخبارات ، سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے مگر کسی کو احساس جرم تک نہیں ہوتا۔پنجاب یونیورسٹی کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ پاکستان کی اعلی یونیورسٹیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے مگر اس عمارت کے اندر کالی بھیڑیں پھرتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کبھی کوئی پروفیسر ، کبھی کوئی انتظامیہ لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرتے نظر آتے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ جمعیت والوں نے ان باغیوں کو کافی کنٹرول کیئے رکھا ہے

مگر اس کے باوجود گناہ ایسا ہے کہ رکتا ہی نہیں۔۔یونیورسٹی کے پروفیسرز پر مقدمے بھی کرائے گئے سوشل میڈیا میں بھی آگ بھڑکتی رہی مگر لاحاصل۔۔۔ حال ہی میں 6طالبات نے پریس کانفرنس کروائی جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ مختلف قسم کی ڈرگز استعمال کرنے پر انھیں اکساتی ہے اور یہی نہیں جنسی ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں انتظامیہ نے اس رپورٹ کو غلط قرار دے دیا۔

مگر سوال اٹھتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے بارے میں جنسی ہراساں کے انکشاف کیوں ہوتے ہیں ۔۔ کیاپنجاب یونیورسٹی میںکوئی خاص قسم کی خوراک استعمال کرتی ہے جو ایسی حرکات کی طرف راغب کرتی ہے۔

Punjab University

Punjab University

پنجاب یونیورسٹی میں یہ ڈرگ سکینڈل جو نہی آگ کی طرح پھیلا، تو متعدد سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کر دیاگیا کہ اب پنجاب یونیورسٹی کی ٹیموں پر آنکھیں بند کرکے شامل ہونا یا کھیلنا ممکن نہیں رہا ۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں نے آئندہ ایچ ای سی کی طرف سے بھیجے جانے والے مجوزہ شیڈول میں اس معاملے کو اٹھانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

Students

Students

طالبات کھلاڑیوں کو ممنوعہ ادویات دینا بے شک ایک بین الاقوامی جرم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے پر پنجاب یونیورسٹی کی ٹیموں اور انتظامیہ کی کارکر دگی پر ایک بڑا سوالیہ نشا ن ہے۔

تحریر: لبنی اعظم چوہدری