الیکشن انجینئرنگ

Election

Election

تحریر : قادر خان یوسف زئی

بلدیاتی نظام کے خاتمے سے قبل ہی سیاسی درجہ حرارت میں تیزی آ رہی ہے، کیونکہ ہر سیاسی جماعت نچلی سطح پر من پسند ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتیاں کروانے کی کوشش کررہی ہے، اس طرح انہیں ترقیاتی کام کروانے کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں بھی مدد فراہم ہوگی۔ یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پاکستان کے طول عرض میں ہوتا ہے، اس قسم کے معاملات کو عموماََ الیکشن انجینئرنگ بھی کہا جاتا ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مملکت کے دوسروں حصوں کے انتظام و انصرام کا فیصلہ کرتے ہوئے کراچی کی حساسیت کو سمجھیں،کیونکہ جب تک کراچی کے اصل حالات اور زمینی حقائق سے صرف نظرکیا جاتا رہے گا، ہم کراچی کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
ایک عام انسان سے پوچھا جاتا تو اس کی بس یہی دُہائی ہوتی کہ کراچی میں امن قائم ہوجائے، آج کراچی میں امن قائم ہے لیکن دیرینہ مسائل نے کراچی کو اس قدر کرم خوردہ کردیا ہے کہ اس کا ناسور کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے، جس طرح شوگر کے مریض کو بد قسمتی سے اگر کوئی زخم لگ جاتا ہے تو جوں جوں وہ دوا کرتا ہے، زخم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ شہر قائد کے مسئلے کو جس قدر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی ایک انگلی کا زخم آہستہ آہستہ پورے جسم میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے، اس لیے شہر ناپرساں میں الیکشن انجینئرنگ کے نام پر ماسوائے زخم پر زخم دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاتا۔

کمال حیرانی کی بات یہی ہے کہ آپریشن راہ نجات ہو یا آپریشن راہ راست، یا موجودہ آپریشن ضرب عضب، سمیت کراچی کے علاوہ جہاں بھی نظر دوڑائیں تو کچھ نہ کچھ آپریشن کے نتائج نکل ہی آتے ہیں، لیکن شہر کراچی، شیطان کی آنت کی طرح اتنا طویل تر بھی نہیں کہ اس کے لیے مربوط پلاننگ نہ کی جاسکے،چھپنے کے لیے پہاڑیاں میں غار تو نہیں لیکن نیلا، گدیلا سمندر ضرور ہے۔ اگر غار کے لیے پہاڑ ہونا ضروری ہیں تو پھر کراچی میں بلند وقامت عمارتوں کو پہاڑوں سے تشبیہہ اوربلند و بالا عمارات میں بنے فلیٹس کو غار کہا جا سکتا ہے۔بات دراصل یہی ہے کہ کراچی میں مزید تجربات کا وقت گذر چکا، بس احتیاط کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے سے بھی حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلتے، نئے اتحاد بنانے کے بھی فوائد حاصل نہیں ہوتے، سیاسی کوششیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں تو پھر طاقت، مفاہمت اور مصلحت، سب ناکامی کا سامنا کر رہے ہوں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اب مقتدر حلقوں اور ارباب اختیارکو احتیاط کی ضرورت ہے۔

کراچی کی اکثریت خاموش رہنے کو ہی فوقیت دیتی ہے کیونکہ اسی میں عافیت نظر آتی ہے۔جہاں ہزار وں انسانوں کو کراچی میں موت کے گھاٹ اتار ا گیا لیکن سب ٹھیک تھا،روزانہ کراچی میں گیارہ بارہ افراد ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کردیے جاتے، لیکن سب کچھ ٹھیک رہا۔ علما کو خون میں نہلا دیا جاتا، لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک کہا جاتا، علم کی روشنی پھیلانے والوں کی زندگیاں بجھا دی جاتیں،لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہی رہتا،انسانی زندگیوں کو بچانے والے موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے، لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک کی گردان تھی،قانون کے علمی محافظ اپنی زندگی کا مقدمہ ہار جاتے، لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا،قانون نافذ کرنے والے، اپنی حفاظت نہیں کر پاتے، لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک کہتے۔کراچی کے جسم ناتواں پر کتنے گہرے گہرے زخم ہیں، کتنے زخم کریددوں لیکن دل پھر بھی نہیں دہلے گا، احتجاج دھرنے جلوس کبھی کراچی والوں کے لیے نہیں ہوئے بلکہ ذاتی مفادات کے لئے ویرانی و سراسمیگی پھیلائی گئی۔اس لیے احتیاط ضروری ہے۔

بات کی جاتی ہے کہ سندھ کی تقسیم کوئی مائی کالال نہیں کرسکتا، تو کیا ہندوستان جب تقسیم ہو رہا تھا تو دوسری جانب کے لوگ ماں جائے نہیں تھے، سندھ ہندوستان کا حصہ تھا، تقسیم ہوا تو اس طرح ہوا کہ وہ بھارت کا ہی نہیں رہا۔ہندوستان کے نقشے سے اس کا نام ہی مٹ گیا، سندھ کا شہر کراچی، سندھ کا حصہ تھا تو، وفاق کے نام پر ایسے سندھ سے الگ کردیا گیا۔ کوٹہ سسٹم جب لاگو کرکے دیہی و شہری تفریق پیدا کی جارہی تھی تو سندھ کی تقسیم کی بنیاد تو خود سندھ کے وارثوں نے ہی رکھ دی۔ تو پھر گلہ کس سے کرتے ہو۔ مہمان نوازی کا پرفریب نعرہ ان لوگوں کو دیا جائے جو اس بہکاوے میں آجاتے ہوں گے، یہاں اب کوئی میزبان اور کوئی مہمان نہیں، کیونکہ یہ پاکستان ہے، پاکستان کی شناخت رکھنے والا، پاکستانی ہے،اس کی شناختی علامت اس کا پاکستانی ہونا ہے۔

سندھ بالخصوص اس کے شہر کراچی کو انتظامی یا سیاسی بنیادوں پر یونٹس میں تقسیم کیاجائے تو بھی(عوام کو) کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ نئے یونٹس انتظامی بنیادوں کے نام پر نہیں بلکہ الیکشن انجینئرنگ کی بنیادوں پر بنائے جا رہے ہیں، صوبہ سرائیکی، جنوبی پنجاب، ہزارہ صوبہ، بلوچستان پختونخوا،اور سندھ کے مشرقی، مغربی و شمالی صوبہ بنانا انتظامی یونٹس بنانے کے مطالبات نہیں بلکہ، واضح طور پرالیکشن انجینئرنگ پر بنائے جانیکی کوششیں ہیں، ہاں یہ بات قابل اعتراض ہے کہ کوئی جماعت اگر پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتی ہے لیکن سندھ کی تقسیم کے مخالف ہے تو یہ دوغلا پن ہے۔

اگر کوئی جماعت خیبر پختونخوا کی تقسیم کی حامی ہے لیکن سندھ کی تقسیم کی مخالفت پر یکجا ہوجاتے ہیں تو یہ کھلی منافقت ہے، سیدھی سی بات ہے کہ، سب سے پہلے دوہرا معیار ختم کیا جائے۔ تاہم اگر بات یہ ہو کہ ہم پہلے، سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، بروہی، پختون، مہاجر وغیرہ ہیں اور پھر پاکستانی ہیں تو بیس کے بجائے دو سو یونٹس بنانے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے پاس چار صوبوں کے لیے پہلے ہی وسائل نہیں ہیں، صوبائی خود مختاری کے باوجود حکومتیں، مثالی نہ بن سکی توکتنے ہی یونٹس بنا لیں، جب وسائل ہی نہیں تو کیا نئے یونٹس اپنے عوام کے لیے آسمان سے من و سلویٰ کھلانے کی امید لیے بیٹھے ہیں۔

اپنے مطالبات(الیکشن انجینئرنگ) کے حل کے لیے شہر کراچی کو اس مقام پر نہ لے جایا جائے، جہاں سے واپسی کی امید ہی نہ ہو۔اگر کراچی کے مسائل حل نہیں کئے جارہے، انتہائی دگرگوں حالات کے باوجود تدبر سے کام نہیں لیا جاتاتو پھر کراچی کے عوام کو پاکستان کے دیگر عوام سے علیحدہ کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔کہتے ہیں کہ کسی کو مارتے جاؤ، مارتے جاؤ، تو وہ بھی مارکھاتے کھاتے اس قدر ٹھیٹ ہوجاتا ہے کہ اس پر کسی مار کا اثر نہیں ہوتا، اس کا جسم اس کا دماغ بے حس ہوجاتا ہے اور وہ غور وفکر سے معذور ہوجاتا ہے، تو پھر اس مریض کے لیے ہائی اینٹی بائی ٹیک ادویہ بھی کارگر نہیں ہوتیں، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں، احتیاط کریں کراچی کُوما میں جا رہا ہے۔

 Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی