بھلا دشمنوں کو بھی کو ئی انکل کہتا ہے

Peshawar Incident

Peshawar Incident

تحریر : انجم صحرائی
سانحہ پشاور کیا ہوا قلم ہی رک گیا کچھ بھی نہ لکھا گیا نہ مذمت اور نہ ہی افسوس کے دو لفظ۔ لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو یقین ہی نہیں آ تا کہ کو ئی انسان بھی اتنا بے رحم اور سنگ دل ہو سکتا ہے کہ معصوم بچوں کو محض اس لئے ٹارگٹ کر کے ان کے سروں میں گو لیاں مار کے سفاکیت اور بر بریت کی موت سلا دے کہ ان کے والد ان کے خلاف میدان جنگ میں بر سر پیکار ہیں وہ معصوم تو اپنے ان دشمنوں سے اتنے نا آ شنا تھے کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ ان کا قتل عام کر نے والے طا لبان ہیں شا ئد ان کے والدین نے انہیں کبھی بتا یا ہی نہیں تھا کہ طا لبان ان کے دشمن ہیں جبھی تو حملے کے بعد ایک بچ جا نے والے ننھے منے بچے نے بتا یا” ما شا ء اللہ اس انکل کی بڑی سی داڑھی تھی جو گن سے گو لیاں چلا رہے تھے ” بھلا دشمنوں کو بھی کو ئی انکل کہتا ہے۔ .

سچی بات میں جس سماج میں رہتا ہوں طا لبان ہمیشہ میرے قریب رہے ہر شام مسا جد میں پڑھنے والے معصوم بچے میرے گھر آ تے ہیں اور دروازے پر دستک دے کر “طالب ” کی صدا بلند کرتے ہیں میری ماں اور میری بیوی کو یہ معصوم صدا ئیں لگا تے طالب بہت پیا رے اور اچھے لگتے ہیں میں جب کبھی کبھی کہتا ہوں کہ یہ مدرسوں والے ان طا لب علموں کو ہا تھوں میں چنگیریاں دے کر گھر گھر جب رو ٹیاں جمع کرنے بھیجتے ہیں تو یہ ظلم ہے اور یہ نسل کو پڑھا نہیں رہے بلکہ بھکاری بنا رہے ہیں تو اللہ بخشے اماں کو وہ نا راض ہو جا تیں اور کہتیں رہنے دے اپنا فلسفہ ۔ یہ معصوم تو اللہ کے مہمان ہیں اللہ کے بندوں کو ان مہما نوں کی قدر کر نا چا ہئیے ۔ میرے بچے ان طا لبان سے بڑے ما نوس تھے۔

جب بھی طا لب کی صدا آ تی نعمان مچل جا تا اور کہتا امی طالب آ یا ہے روٹی دے دیں میں دے آ ئوں ذرا سی دیر ہو نے پر اس کی تکرار بڑ ھتی جا تی بعض اوقات اسے کچھ سننا اور سہنا بھی پڑ جا تا بگر وہ کبھی طا لب کو نہ بھو لتا ۔ہر عید تہوار پر یہ اللہ کے مہمان ہمارے مہمان بن جا تے شادی ہو یا غمی ان طا لبان کے بغیر سب ادھورے ہو تے ۔ با با جی بیمار ہو ئے تو انہوں نے مجھے اپنے پا س بلا یا ایک پرانا سا بٹوا اپنی کرتے کی جیب سے نکال کر بو لے “یار یہ کچھ پیسے ہیں قاری صاحب کو دے آ ئو بہت سے طالب ان کے مدرسے میں پڑ ھتے ہیں “با با فوت ہو ئے تو مدرسے کے یہ سبھی طا لبان میرے غم میں شریک تھے ۔ ایصال کے لئے قر آن خوا نی ہو ئی تو یہی طالبان سب سے زیادہ تلاوت کرنے اور دعا ئیں ما نگنے والے تھے ۔ یہ سب طا لب تو میرے دوست ہیں غمگسار اور ہمدرد میرے دکھوں میں شریک ہو نے والے طالبا ن ۔۔ مگر ۔

سا نحہ پشاور کے بعد جب ٹی چینل پر 132 بچوں کے لا شے دیکھے سب نے ، میرے گھر والوں نے ، میرے بچوں نے تب سے طالب کی وہ صدا ہم سبھوں کو اجنبی سی لگنے لگی ہے ۔ ٹی وی چینل کے منا ظر نے ہم سب کو پو ری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ۔ 18کروڑ عوام دکھی ہو گئی ہر آ نکھ اشکبار اور ہر لب نو حہ کناں ۔ رات گئے ظفر کا فون آ یا تو وہ سسک رہا تھا گھٹی گٹھی آواز سے کہنے لگا “صحرائی یاریہ کیا ہو گیا میں اسے کیا جواب دیتا میں تو خود کو مے میں تھا میرے جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگا یار میں نے اپنے با با کو چار بار رو تے دیکھا ہے پہلی بات 16 دسمبر 71 میں جب پا کستان دو لخت ہوا پھر جب بھٹو کو پھا نسی لگی ۔ جب بی بی شہید ہو ئیں تب بھی میرے گھر والے روئے اور سا نحہ پشاور کے دن جب میں ہسپتال سے گھر گیا تو میری بیوی اور بچیاں سبھی رو رہی تھیں ان معصوم بچوں کے بہتے لہو نے ہم سب کو رلا دیا یہ کہتے ہو ئے وہ ایک بار پھر سسک پڑا ۔ فیس بک پہ میں نے صبح پا کستان کے page پر اپنے دوستوں سے سوال کیاکہ سا نحہ پشاور میں دہشت گردی کا شکار بننے والے بچوں کی خبر سن کر آپ پر کیاگذ ری ؟ بلا ول سہو نے لکھا کہ ” سر جی آپ در یا فت کر تے ہیں کہ سا نحہ پشا ور میں معصوم شہا دتوں پردل میں کیا گذری۔

Student

Student

جناب ایک قیا مت تھی جو گذر گئی۔ واللہ جگر چھلنی چھلنی ہو گیا ہے۔ بچے تو معصوم ہو تے ہیں سب کے پیارے سب کے سا نجھے ، زمین پر خدا کے فر شتے ۔ان سرخ گلا بوں کو مارنا تو دین اسلام نے حالت جنگ میں بھی منع فر ما یا ہے “۔۔قد سیہ شفیق نے لکھا 16دسمبر ہما رے لئے ہماری قوم کے لئے اور پا کستان میں بسنے والے ایک شہری کے لئے ایک سنگین اور دکھ بھرا دن تھا ۔ کہتے ہیں کہ وقت گذ رنے کے ساتھ ساتھ زخم بھی بھر جا یا کرتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا زخم ہے جس کے بھر نے کے لئے پو ری زند گی بھی کم ہے ۔میں خود ایک سٹو ڈنٹ ہوں ایف ایس سی کی ۔مجھے جب اس واقعہ کا خیال آ تا ہے تو روح کا نپ جا تی ہے ۔ بس میں تو یہی کہوں گی اپنے بزر گوں سے کہ ایک قوم بن جا ئیں ۔ایک پو ری قوم ۔ سب ایک سا تھ کھڑے ہوں اور ہمیں ان دہشت گردوں سے بچا لیں۔

ایک اور بات یہ کہ میرا وطن پا کستان 14بر سوں سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے ان سا لوں میں کہتے ہیں کہ 50
ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گر دی کا شکار ہو ئے ۔مسا جد ،امام بار گا ہیں ،محرم ،عید میلا د النبی اور جنازوں کے جلوس ۔ بازار گلی محلے سبھی ان دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنے ۔جی ایچ کیو سے وا ہگہ بارڈر تک کتنے زخم سہے اس قوم نے ،کتنے جنازے اٹھا ئے اس قوم نے ،مگر یہ قوم بٹی رہی تقسیم رہی ،دہشت کا شکار ہو نے والے سماج میں بھی ان طا لبان کی وکا لت ہو تی رہی مگر اب تو لگتا ہے کہ بچوں کے معصوم لہو نے سبھی کو ایک کر دیا ۔سا نجھے فر شتوں کا دکھ سبھوں کوسانجھ سکھا گیا ، سب پا کستان بن گئے اور سب پا کستا نی ۔آ رمی پبلک سکول پشاور میں بر پا ہو نے والی قیا مت صغری نے سبھی کو رنجیدہ کر دیا ۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مو لا نا فر ما رہے تھے کہ سکول میں بچوں کو ہلاک کر نے والے ظالموں کو طا لب کہنا درست نہیں۔

طا لب تو وہ ہو تا ہے جس نے کسی مدرے یا مسجد سے تعلیم حا صل کی ہو یہ طالبان نہیں ظالمان ہیں یہ بات ایک مفتی ایک عالم دین کہہ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ 16دسمبر کے سا نحہ پشاور نے جہاں بہت کچھ لو ٹا وہاں اس وا قعہ نے صدیوں سے میرے اور طالب کے اس معصوم تعلق کو بھی پا رہ پارہ کر دیا ہے اب رات کو جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جا تا ہے طالب کی صدا بلند ہو تی ہے تو کو ئی بچہ رو ٹی لے کر دروازے پر جا نے کے لئے اصرار نہیں کر تا لگتا ہے کہ لوگ ان اللہ کے معصوم مہما نوں کی صدا طالب سے خوف کھا نے لگے ہیں۔

ہم سب کو طالب سن کر قرآن پڑ ھنے والے دعا ئیں ما نگنے والے طا لبان کی بجا ئے سا نحہ پشاور میں گو لیوں چلاتے اور معصوم بچوں کو قتل کرتے ہو ئے دہشت گرد طالبان یا د آ جا تے ہیں ۔افسوس ان دہشت گر دوں نے محلے کی مسجد اور مدرسے کے ان معصوم طا لبان کا چہرہ بھی گہنا دیا ہے۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی